|

وقتِ اشاعت :   November 6 – 2020

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے چیرمین زبیر بلوچ نے اپنے جاری بیان میں کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں ظلم و نا انصافی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں روزانہ کی بنیاد پہ مختلف لوگوں کو لا کر یونیورسٹی میں طلباء کو ان کے حقوق سے بزور دستبردار ہونے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے طالبات اور نئے ہونے والے داخلوں کے اسٹوڈنٹس کو ہاسٹل میں رہائش نہیں دی جارہی ہے۔

جن کے مسائل کو کئی بار بے اختیار و بے بس وائس چانسلر کے سامنے رکھے لیکن موصوف ہر بار وعدہ کرکے مکر گئے۔چیرمین زبیر بلوچ نے مزید کہا کے یونیورسٹی میں ایک مافیا مستقل طور پر کام کررہا ہے جو بزور طاقت اپنے فیصلے منوانے پر بضد ہے 2020 کی ایڈمیشن پالیسی مکمل طور ہر بلوچ دشمن پالیسی ہے جسے ہم پہلے مسترد کرچکے ہیں بلوچ پروفیسرز اور ملازمین کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا گیا ہے۔

42 بلوچ پروفیسرز (پی ایچ ڈی)موجود ہے لیکن ان کو یونیورسٹی کے انتظامی امور اور ڈیپارٹمنٹ میں صرف بلوچ ہونے کی وجہ سے بائی پاس کیا جاتا ہے کنٹرولر کے آسامی پہ ایک ایسے فرد کو بیٹھا دیا گیا ہے جو 4 پوسٹوں پر پہلے سے تعینات ہے جو کے 1996 کے ایکٹ کے مکمل خلاف ورزی ہے۔

ہمارہ مطالبہ ہے کے ایڈمیشن پالیسی، طالبات اور نئے ایڈمیشن ہونے والے اسٹوڈنٹس کے ہاسٹل کے مسائل سکیورٹی کے نام پہ تذلیل اور ایگزامینیشن برانچ کی صاف شفاف آڈٹ کیا جاے اور بی بی اے ڈیپارٹمنٹ میں خفیہ اکاونٹس کا بھی پوچھا جاے کے طلباء کو اضافی فیس کس بنیاد پہ خفیہ اکاونٹس میں جمع کرنے کے لیے ہراساں کیا جاتا ہے۔