|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2020

امریکہ کے نومنتخب صدر جو بائیڈن نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں عوام کو تقسیم کرنے کی بجائے جوڑنے کا عہد کیا ہے۔بائیڈن نے کہا کہ میں امریکی تاریخ میں ریکارڈ ووٹ حاصل کر کے صدر منتخب ہوا ہوں اور ہم امریکہ کو ایک بار پھر دنیا بھر میں قابل احترام بنائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ مڈل کلاس افراد ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں، ہم انہیں مضبوط بنائیں گے۔ عوام نے مجھے ملکی معیشت کی بہتری کے لیے چنا ہے۔

نئے امریکی صدر نے کہا کہ میں ایک ایسا صدر ہوں گا جو تفرقہ پھیلانے کے بجائے لوگوں کو آپس میں ملائے، جو نیلی ریاست (ڈیموکریٹس) یا لال ریاست (رپبلکن) نہیں دیکھے گا بلکہ پورا امریکہ دیکھے گا اور اپنا پورا دل و جان لگا کر اپنی قوم کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرے گا۔جنہوں نے میرے حق میں یا خلاف ووٹ دیا،ان سب کا صدر ہوں گا۔ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کروں گا۔نومنتخب امریکی نائب صد ر کملا ہیرس نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ جمہوریت کے تحفظ کی کوششیں قربانیاں مانگتی ہیں۔امریکی عوام نے امید، اتحاد اور شائستگی کا انتخاب کیا ہے۔

ہمیں محنت اور عوام کی محبت کی وجہ سے کامیابی ملی۔بہرحال جوبائیڈن دنیا کے سپر ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور ان کے فیصلوں اور حکمت عملی کے دنیا بھر پر اثرات مرتب ہونگے خاص کر اب افغانستان سمیت اور اس خطے کے حوالے سے ان کی پالیسی کیا ہوگی جو مذاکراتی عمل ہے اس کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے گا اور امریکی فوج کی انخلاء یقینی ہونے کے ساتھ ساتھ ملابرادران کو جو ٹاسک افغانستان میں مذاکرات کیلئے دیا گیا تھا اس حوالے سے مکمل حمایت جاری رہے گا اور مزیداس حوالے سے بہترین فیصلے کئے جائینگے تاکہ افغانستان سمیت خطے میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آسکے۔

چونکہ بیشتر عالمی رہنماؤں کا جو بائیڈن کے متعلق رائے انتہائی مثبت ہے کہ ان کی زیادہ کوشش ہوگی کہ امریکہ خود اپنی مشکلات اور چیلنجز سے نکلے اور اسی طرح امریکہ کے لئے جو مشکلات دنیا کے دیگر ممالک میں موجود ہیں ان سے بھی نکلنے کی پوری کوشش کرینگے البتہ ڈونلڈٹرمپ کے پورے دورانیہ کو دیکھا جائے تو ان کی شخصیت اور صدر کے حوالے سے خاص کر ان کے اقدامات کو کسی طرح بھی امریکہ اور دنیا میں پذیرائی نہیں ملی جو دیگر صدور کے حصہ میں آئی ہے اور جس طرح کی تنقید کا سامنا ڈونلڈٹرمپ کو اپنے تمسخر اور گھمنڈکی وجہ سے کرنا پڑتا تھا۔

اوروہ ہر وقت خبروں کی زینت بنا رہتا تھا البتہ امریکی اسٹیٹ پالیسی کے حوالے سے ایک بات واضح ہے کہ وہ اپنے مفادات پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرے گا بلکہ اسٹیٹ پالیسی میں کوئی خاص ردوبدل جوبائیڈن بھی نہیں کرینگے مگر اس وقت اہم مسئلہ افغانستان میں ہونے والی جنگ کا ہے جس کا براہ راست تعلق امریکی پالیسی سے ہے اور اس میں ابھی تک امریکہ کو کسی صورت کامیابی نہیں ملی ہے نہ جنگی حکمت عملی سے اور نہ ہی امن مذاکرات کے حوالے سے اپنے اہداف حاصل کرسکے ہیں۔بہرحال اب جوبائیڈن پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں کہ نومنتخب امریکی صدر آنے والے دنوں میں کیا۔

اہم اعلانات کرینگے اور ان کی اپنی ذاتی طور پر دلچسپی اس خطے کے حوالے سے کیا رہے گی اور پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں فاصلے یا دوری کہاجائے اس میں کس حد تک بہتری آئے گی کیونکہ بھارت کو جس طرح ڈونلڈٹرمپ کے دور میں ترجیح دی گئی اس سے قبل بھی یہی رویہ اپنایا گیا اسے ترک کرتے ہوئے خطے میں استحکام لانے کیلئے پاکستان کے ساتھ بہترین تعلقات استوار کرتے ہوئے مستقبل میں نئے راستے بہتری کیلئے تلاش کئے جائینگے یہ جوبائیڈن کے آئندہ اعلانات پر منحصر ہے۔