سال کے آغاز میں جب کورونا وائرس کی وبا پھوٹی تو اندازے یہی تھے کہ اس سے بین الاقوامی تعلقات جمود کا شکار ہوجائیں گے۔ بعض لوگوں کو توقع ہوچلی تھی کہ عالمی معیشت اور سیاست میں قائدانہ کردار کی جانب چین کے بڑھتے قدم رُک جائیں گے، اسی طرح چین اور روس کا اتحاد بھی وبا سے پیدا شدہ حالات کو سہار نہیں پائے گا۔ لیکن حالات ان توقعات کے برعکس ثابت ہوئے۔ وبا سے پیدا ہونے والے بحران میں امریکا کی ناکامی اور چین کی سرخروئی کے ساتھ معاشی بحالی نے ایک بار پھر اس تاثر کو پختہ کردیا کہ دنیا کی سیاسی و اقتصادی قیادت اب یوریشیا یا مشرق کی جانب منتقل ہورہی ہے۔
پاکستان اپنے محل وقوع اور کسی حد تک اقتصادی شناخت کے حوالے سے گومگوں کا شکار رہا ہے۔ جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے یہ جنوبی و وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کا حصہ ہے۔ یوریشیا میں شامل خطہ بحرالکاحل کے ساحلوں سے اٹلانٹک تک پھیلا ہوا جس میں مشرقی، جنوب مشرقی ایشیا اور یورپ بھی شامل ہیں۔ سو برس قبل یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ یہ خطہ تاریخ کا محور بننے جارہا ہے اور آج ہم اسے حقیقت ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ دوراندیشی پر مبنی چین کا بیلٹ روڈ انیشی ایٹیوو اس طویل و عریض خطے کو سڑکوں، ریل، پائپ لائن اور بحری راستوں کے ذریعے باہم مربوط کرنے لیے شروع کیا گیا ہے۔
ققنس کے مانندسوویت یونین کی راکھ سے جی اٹھنے والا روس نہ صرف مختصر وقت میں اس قابل ہوگیا کہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا ہے بلکہ اب مشرق میں چین سے ٹھوس اتحاد کی تشکیل کے بعد جنوب میں بحیرہ ہند پر اس کی نگاہیں جمی ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر ایسی ہی اقتصادی تنظیمیں اسی یوریشیائی رشتے کو مضبوط کرنے کے لائحہ عمل کی جزئیات طے کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اس میں کئی تند موسم اور مسائل حائل ضرور ہوئے لیکن سیاست و معیشت کے میدان میں استوار ہونے والے اس نئے عہد کے لیے عزائم کو کمزور کرنے کی کوششیں بری طرح ناکام رہی ہیں۔
اس اتحاد میں ترکی اور ایران نیا اضافہ ہیں۔ نیٹو میں شامل ہونے کے باوجود مغرب اور امریکا کی بے اعتنائی کے زخم سہنے والا ترکی ایک ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت ہے جسے یوریشیا کا زمینی پُل تسلیم کرنا چاہیے۔ چار دہائیوں تک بے رحم معاشی پابندیاں اور قدغنیں برداشت کرنے والا ایران بدلتے حالات میں دوبارہ اپنی تمام تر قوت بروئے کار لانے کے لیے پُرعزم ہے۔ یوریشیائی برادری کی تشکیل کے ساتھ ہمارے حالات بھی مزید بہتر ہوں گے۔ عالمی اقتصادی فورم کاروبار، سیاست، فن اور میڈیا کے ایسے نمایاں افراد کی بین الاقوامی کمیونٹی ہے۔
جو عالمی سطح پر ہونے والے سیاسی و اقتصادی فیصلوں پربراہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ دنیا جس طرح کثیر القطبی ہوتی جارہی ہے، قائدین اور ماہرین کو علاقائی، سیاسی اور قومی سطح پر باہمی تعاون کے لیے فوری سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ یہ عالمی سطح پر جیواسٹریٹجک تعاون کا ایسا پلیٹ فورم ہے جہاں تحقیق اور حقائق کی بنیاد پر افہام و تفہیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس اہم تنظیم میں پاکستان کی نمائندگی کئی پاکستانی بزنس گروپ کرتے ہیں اور اپنی متحرک شرکت سے اس عالمی کمیونٹی کو اپنے ملک کی نمائندگی کا احساس دلاتے ہیں۔
پاکستان ابھی تک اس فورم کے مشرق وسطی اور شمال افریقہ گروپ (MENA) سے منسلک ہے۔ عالمی سطح پر بننے والے نئے اتحاد اور تعلقات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ بین الاقوامی روابط کو ایک نئے زاویے سے دیکھا جائے۔ ہماری موجودہ خارجہ پالیسی کے خطوط مشرقی وسطیٰ اور خلیج میں سامنے آنے والی حالیہ پیش رفت کے لیے پوری طرح موزوں نہیں رہے۔ اس لیے MENAخطے کے ممالک اور پاکستان کی ایک دوسرے پر توجہ کے ارتکاز کی وہ سطح نہیں رہی۔ جنوبی اور وسطی ایشیا میں آنے والی تبدیلیاں ہمارے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
مشرقی وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تناظر میں پاکستان صرف حاشیے پر ہے۔ چین کے بی آر آئی منصوبے میں ہماری بڑھتی حصے داری اور سی پیک کی بنا پر ایران اور وسطی ایشیا پاکستان کے لیے زیادہ اہم ہوچکے ہیں۔بی آر آئی کے بنیادی جزو سی پیک کی وجہ سے اقتصادی تعاون تنظیم پھر توجہ کا مرکز بنی ہے۔ ای سی او 1985میں قائم ہوئی تھی، یہ بنیادی طور پر امریکا اور برطانیہ کی ایما پر بننے والی اور ایران، پاکستان، ترکی پر مشتمل علاقائی تعان تنظیم (آر سی ڈی) کی بنیاد پر تشکیل دی گئی تھی جس نے خطے میں ہونے والے کمیونسٹ مخالف بغداد پیکٹ اور سینٹو کی جگہ لی۔
1992میں ای سی او میں سات ممالک؛ افغانستان، آذر بائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہوئے۔ اس تنظیم میں شامل ممالک کا مجموعی رقبہ یورپ سے دگنا ہے، یہ دنیا کے کام یاب ترین علاقائی صف بندیوں میں شمار ہوتی ہے، 80لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلے اس خطے کی آبادی(2013کے اعداد و شمار کے مطابق) 44کروڑ ہے جو دنیا کی آبادی کا 6فی صد سے زائد بنتا ہے۔ اس خطے کی حدود روس، چین، بحیرہ ہند، خلیج فارس اور بحر گیلان کی ترائیوں سے متصل ہیں۔ 2015 میں اس خطے کا تجارتی حجم 68ارب ڈالر سے زائد اور مجموعی جی ڈی پی تقریباً 2ارب ڈالر تک رہا۔
اس خطے کا اوسط فی کس جی ڈی پی 4300امریکی ڈالر تھا۔ 2015میں خطے میں ہونے والی بیرونی براہ راست سرمایہ کاری 37ارب ڈالر سے تجاوز کرگئی تھی۔ چین کے بی آر آئی منصوبے کا محور اور مرکزی انحصار بھی اسی خطے پر ہے۔ سی پیک کے بانی کے طور پر چین نے پاکستان کے معاشی مسائل دور کرنے میں مدد کی اور روس ان حالات میں ایک نئے اتحادی کے طور پر سامنے آیا۔ یہ حالات آج ہماری خارجہ پالیسی کی صورت گری کررہے ہیں۔ یورپ اور ایشیا کے مابین پل کی حیثیت رکھنے والے ای سی او ممالک میں ریل کی نقل و حمل کے لیے 55ہزار کلو میٹر طویل پٹڑیوں کا جال ہے۔
اس میں پاکستان، ایران اور ترکی کا سہ فریقی نیٹ ورک ہے جس میں سڑک، ریل، فضائی اور آپٹک فائبر کے ذرائع مواصلات شامل ہیں۔ اسلام آباد سے براستہ تہران استنبول کا ساڑھے چھے ہزار کلومیٹر طویل فاصلہ 14سے 16دنوں میں طے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کراچی سے ترک بندرگاہوں تک بحری سفر میں چالیس سے پینتالیس دن لگتے ہیں۔ سوئفٹ ٹرین کا ایک معاہدہ تقریبا ًطے پاچکا ہے جس سے یہ سفر پندرہ سے دس دن کم ہوجائے گا۔ ترکی، ایران، ترکمانستان، ازبکستان، قزاقستان کو باہم مربوط کرنے والے ریل پٹڑیوں کے جال سے خلیج فارس، خلیج عمان، ایشیائی ممالک۔
چین، روس، ترکی اور یورپ کے فاصلے سمٹ جائیں گے۔ اس سے قزاقستان کے ساتھ ترکمان اور ازبک بارڈر سے ایران تک کے سفر میں 600کلو میٹر کمی آئے گئی اور دو دن کا سفر کم ہوجائے گا۔ قزوین سے رشت تک کا ایران و آذر بائیجان کا 164کلو میٹر کا حصہ پورا ہوچکا ہے جس کے بعد قزوین، رشت اور استرا کی شاہراہ 60فیصد مکمل ہوچکی ہے۔ ایران کے ذریعے خلیج فارس کو وسطی ایشیا سے جوڑنے کے لیے قزاقستان، ترکمانستان اور ایران کے مابین بننے والے ریلوے نیٹ ورک سے خطے کی بندرگاہوں تک رسائی بڑھ جائے گی۔ اس طرح خلیج فارس کی بندرگاہوں سے یورپی ممالک تک براہ راست ریلوے راستہ بن جائے گا۔
طوالت میں نہر سوئز سے تین گنا چھوٹی کئی یوریشیائی راہداریاں کیسپین سے قزاقستان تک کاروباری و سماجی مواقعے اور ماحول کے امکانات پیدا کرسکتی ہیں۔ اس خطے میں بننے والے راستے اقتصادی تعاون کی ٹھوس بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ خطہ قدرتی گیس، معدنیات، تیل اور وسائل سے مالا مال ہے، اس کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ اس اعتبار سے یورپ تا افریقا ذرائع مواصلات اور رسل و رسائل کو فروغ دینے کے لیے اس سے بہتر زمین کوئی نہیں۔ ای سی او میں پائے جانے والے کئی قدرتی وسائل ابھی تک دریافت بھی نہیں ہوئے۔ ان چھپے ہوئے خزانوں کی وجہ سے یہ خطہ عالمی ترقی کا انجن ثابت ہوگا۔
ان حقائق کا ادراک کرتے ہوئے عالمی اقتصادی فورم نے پاکستان کو یوریشیا گروپ میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔ یہ وہ کمیونٹی ہے جو بے یقینی اور بحرانوں کے اس دور میں شراکت اور باہمی تعاون کے لیے علاقائی قربتوں پر مؤثر انداز میں کام کررہی ہے۔ یہ گروپ یوریشیائی خطے میں ترقی کے نئے تناظر اور یوریشیا کی ڈیجیٹل میدان میں نئی صورت گری کے لیے مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔ دسمبر میں اس گروپ کی ہونے والی ورچوئل میٹنگ میں پاکستان بھی شریک ہوگا۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کی دیرینہ وابستگی مدہم پڑ رہی ہے۔
ہم اپنے پڑوسی ایران اور خود انحصاری کی جانب گامزن ترکی کے زیادہ قریب ہورہے ہیں ایسے حالات میں پاکستان کے لیے یہ غیر معمولی پیش رفت ہے، جس کے طویل عرصے سے ہمیں ضرورت بھی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان نے معیشت اور ادارووں کی بہتری کے لیے اصلاحات کا طویل اور صبر آزما راستہ چنا ہے۔ ہمارے تباہ حال انتظامی اداروں، بیورکریسی، نظام تعلیم اور دیگر مسائل کے لیے یہ ضروری تھا۔ اس جانب پہلا قدم بڑھایا جاچکا ہے لیکن ابھی طویل سفر باقی ہے۔ دنیا بھر کی طرح کورونا وبا نے ہماری معیشت کو بھی ڈگمگا دیا۔
لیکن اپنے کمزور نظام صحت کے باوجود ہم اس بحران سے کام یابی سے نکل گئے ہیں۔ حال ہی میں سی این این کے معروف صحافی و تجزیہ کار فرید زکریا سے بات کرتے ہوئے امریکا کے سابق سیکریٹری خزانہ، ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر اور مایہ ناز ماہر اقتصادیات لارنس سمر نے کہا کہ اگر امریکا پاکستان کی طرح کورونا وائرس وبا سے نمٹتا تو کھربوں ڈالر بچائے جاسکتے تھے۔ مشکلات اور مسائل اپنی جگہ لیکن ہم نے ان حالات میں ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں جن سے گپ اندھیرے میں کئی چراغ روشن ہوئے ہیں۔
اگرچہ یہ محض ابتدا ہے لیکن پاکستان کو یوریشیا کی اہمیت کا ادراک کرنے اور عوام کو اسے باور کروانے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ترکی اس کی بہترین مثال ہے جو بدلتے حالات کے مطابق اپنے قومی مفاد میں اپنی معاشی پالیسیاں اور مستقبل کی راہیں متعین کررہا ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنے لیے آزادی اور اعتماد کے ساتھ اپنے راستے تلاش کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی یوریشیا گروپ میں نمائندگی درست جانب اٹھنے والا قدم ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)