وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک روزہ دورہ افغانستان کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ تعلقات کی مزید بہتری کا خواہاں ہے، افغانستان میں قیام امن کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ 60کی دہائی میں کابل سیاحت کے لیے بہترین مانا جاتا تھا۔عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں مذاکرات کے باوجود تشدد پر تشویش ہے، افغان حکومت اور طالبان میں جنگ بندی چاہتے ہیں، ہمیشہ یہی موقف رہا تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ طاقت سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے معاونت فراہم کی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے قبائلی علاقے متاثر ہوئے۔ کابل اور اسلام آبادکے درمیان مسلسل رابطے رہنے چاہئیں۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستانی عوام اور حکومت افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔
افغانستان میں امن ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ افغانستان میں امن کیلئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔اس موقع پرافغان صدر اشرف غنی کاکہناتھاکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ افغانستان آنے پر وزیراعظم عمران خان کا مشکور ہوں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت سے سب آگاہ ہیں۔افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں تعاون علاقائی ترقی کے لیے ناگزیر ہے، دونوں ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں،افغانستان کے عوام جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اشرف غنی نے کہا کہ ہمیں اسوہ رسول پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو گزارنا چاہیے۔ آزادی اظہار رائے کے حوالے سے منفی اور مثبت رویوں میں تفریق ضروری ہے۔ رسول کی ناموس تمام مسلمانوں کی عزت سے جڑی ہے۔ پاک افغان سربراہان ایک بات پر مکمل متفق ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر انداز میں آگے بڑھائے جائیں جوکہ علاقائی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور اسی طرح قیام امن کے حوالے سے بھی اتفاق رائے دیکھنے کوملتا ہے یقینا یہ ملاقاتیں دونوں ممالک کے درمیان قربت کا نہ صرف سبب بنیں گی بلکہ جو غلط فہمیاں ہیں انہیں بھی دور کرنے میں سود مند ثابت ہونگی۔
اس وقت سب سے اہم مسئلہ افغانستان میں قیام امن اور امن مذاکرات کی کامیابی کا ہے جسے نتیجہ خیزبنانے کیلئے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔پاکستان اور افغانستان دونوں ہی امن چاہتے ہیں مگر تیسری قوتیں جوکہ خطے میں عدم استحکام اور اپنی تھانیداری کیلئے پراکسی کرارہے ہیں ان پر نظر رکھنی چاہئے اور اس میں سب سے اہم کردار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ہے۔
کہ وہ نائن الیون کے بعد اس عمل کا جائزہ لیں کہ طاقت کے استعمال سے ماسوائے جانی اور مالی نقصانات اورجنگی ماحول کے کچھ ہاتھ نہیں لگا بلکہ خطہ مزید شدت پسندی کی لپیٹ میں آیا جس کی بارہا نشاندہی کی گئی کہ جنگ کے ذریعے افغانستان میں امن نہیں لایا جاسکتا اور نہ ہی کوئی خطے میں اپنی تھانیداری قائم کرنے میں کامیاب ہوگالہٰذا عالمی طاقتیں امن عمل کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھانے کیلئے تعاون کریں اور ان عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جو افغانستان میں بدامنی پھیلاکر امن عمل کو سبوتاژکرنے کے درپے ہیں۔ بہرحال خطے میں خوشحالی اور استحکام افغان عمل سے وابستہ ہے جس کیلئے دونوں ممالک کا عزم قابل تعریف ہے۔