تربت: اہالیان تربت کیچ نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی میں سندھ پولیس کی جانب سے مکران سمیت بلوچستان کے لوگوں کی عزت نفس مجروح کرنے کا نوٹس لیا جائے۔ مکران سمیت بلوچستان بھر کے لوگ علاج و معالجے سے لیکر زندگی کے دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کراچی جاتے ہیں، چونکہ صوبہ بلوچستان صحت سے لیکر زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھی پیچھے ہے۔
بلوچستان کے لوگ کئی دہائیوں سے علاج و معالج و دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں تو سندھ پولیس کی لوٹ مار اور اور عزت نفس مجروح ہونے سے نہیں بچ جاتے یہ سلسلہ کئی سالوں بلکہ دہائیوں سے جاری و ساری ہے، جب بھی بلوچستان سے کوئی غریب اور ان پڑھ لوگ کسی کام کی غرض سے کراچی جاتے ہیں تو سندھ پولیس انہیں بلاوجہ روک کر تنگ کرتا ہے، ان سے ایسے توہین آمیز و نفرت بھری انداز میں پیش آتا ہے۔
جیسے وہ کوئی طالبان یا کوئی دہشتگرد ہے، پولیس تلاشی کے بہانے ان کے پیسے سمیت دیگر قیمتی اشیاء کو لوٹ لیتے ہیں، اگر گوئی دینے سے انکار کرے تو اس پر تشدد کرکے اسے تھانے لیجا کر اس پہ منشیات سمیت مختلف دفعات کا کیس لگا کر ذلیل و خوار کرتے ہیں۔گوکہ یہ بلوچستان سے کراچی آنے والے یہ مریض غریب و بزگر ہوتے ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی مشکل سے میسر ہوتی ہے، وہ اپنی جمع پونجھی اور لوگوں سے ادھار لیکر علاج کے لیے کراچی آتے ہیں۔
تو یوسف گوٹھ سے نکلتے ہی سندھ پولیس کا نشانہ بنتے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا آرہا تھا کہ سندھ پولیس بلوچی رسم و رواج کا لاج رکھتے ہوئے خواتین کو سائیڈ پہ کرکے مرد حضرات کو لوٹ لیتے تھے مگر آج کل سندھ پولیس اس تک آ پہنچی ہے کہ بلوچی اور اسلامی روایات کو روند کر خواتین کو بھی تلاشی کے بہانے مختلف بدتمیزی اور غیراخلاقی طریقے سے تنگ کرکے ان کی عزتِ نفس کو مجروع کرتے ہیں۔
اس حوالے سے مکران کے لوگ پہلے بھی کئی بار آواز اٹھاچکے ہیں مگر ایوانوں میں بیٹھنے والے لیڈران کی کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ایک مرتبہ پھر ہم وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ ان بدمعاش اور چور پولیس والوں کے خلاف بھرپور ایکشن لیں۔سندھ پولیس کی بدمعاشی بلوچستان کے عوام پر بند کی جائے۔