|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2020

کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ لوامز وڈھ کیمپس کا افتتاح 2017 میں ہوا کلاسز کا آغاز عارضی طور پر ایک اسکول کی بلڈنگ میں شروع کیا گیا لیکن تین سال گزرنے کے باوجود اب تک لوامز وڈھ کیمپس کے ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع نہ ہوسکا، انتظامیہ کی عدم دلچسپی اور سستی کی وجہ سے یونیورسٹی کے طلباء کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یونیورسٹی کے طلباء باقاعدہ کلاسسز اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کیمپس میں فیکلٹی کی کمی کے باعث اس وقت صرف چار ڈیپارٹمنٹ فعال ہیں اور ان ڈیپارٹمنٹس میں اسلامیات کے لیکچرار کمپیوٹر سائنس اور سوشیالوجی کے لیکچرار ایجوکیشن کے مضامین پڑھائی جاتی ہیں اور اکثر استاتذہ کی تعیناتی شفارش کی بنیاد پر کی گئی ہے اور انمیں سے اکثر اساتذہ کے پا س ماسٹر کی ڈگری تک نہیں ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی نااہلی اور حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ارادہ تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ شہید سکندر یونیورسٹی خضدار میں بھی ابھی تک کلاسسز کا اجراء نہیں ہوا ہے اور اب ایک منصوبے کے تحت شہید سکندر یونیورسٹی کے بلڈنگ کو جھالاوان میڈیکل کالج کو دینے کی کوشش کی جارہی ہے یہ ایک بہت افسوس ناک عمل ہے۔ اس سے پہلے بھی حکومت بلوچستان کی جانب سے شہید سکندر یونیورسٹی اور جھالاوان کے دیگر اداروں کو ختم کرنی کی کوشش کی گئی تھی۔

لیکن اہلیان جھالاوان اور طلباء و طالبات نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا توحکومت نے اس وقت یقین دہانی کروائی تھی کہ مارچ میں باقاعدہ کلاسسز کے اجراء کیا جائے گا لیکن حکومت کی غلط پالیسیوں اور عدم دلچسپی کے سبب اب تک بھی کلاسسز کا باقاعدہ اجراء نہیں ہوسکا۔ترجمان نے بلوچستان حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلداز جلد لوامز وڈھ کیمپس کے ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا جائے اور شہید سکندر یونیورسٹی خضدار میں باقاعدہ کلاسسز شروع کئے جائیں۔