|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2020

وڈھ: بی ایس او کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت شرح ناخواندگی 60 فیصد سے بھی اوپر ہے اور تقریبا بلوچستان کی 80 فیصد آبادی سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے بحرانی صورتحال میں تعلیمی اداروں کی بحالی میں غفلت یقیناً بلوچ قوم دشمنی کی انتہا ہے اور ایسے وقت میں تعلیمی اداروں کے بندش کی سازشیں اور پالیسیاں یقیناً کسی المیے سے کم نہیں بلکہ یہ قومی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہید سکندر یونیورسٹی کے خلاف سازشیں اور اس کے کلاسسز میں تاخیر حکمرانوں کے تعلیم دشمن پالیسیوں کا مکروہ چہرہ بے نقاب کر رہی ہیں۔ جں کہ دوسری طرف ضلع خضدار ہی کے تحصیل وڈھ میں یونیورسٹی کیمپس کی منظوری تو دے دی گئی ہے مگر اس یونیورسٹی کو ایک باقاعدہ سازش کے تحت پرائمری اسکول میں تبدیل کرکے مکمل بند کرنے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔

بلوچستان کے طلبا ء کو انتہائی بنیادی سہولت یعنی بلڈنگ تک میسر نہیں۔ اور دوسری جانب اسی کیمپس کے ساتھ منظور ہو جانے والا ڈیرہ مراد جمالی کیمپس اور شہید سکندر یونیورسٹی کی بلڈنگ باقاعدہ مکمل ہو چکے ہیں جب کہ پنجگور کیمپس کا دورہ وزیر اعلیٰ کر چکے ہیں۔مرکزی ترجمان نے کہا کہ وڈھ یونیورسٹی میں ہاسٹل اور بلڈنگ کی سہولت نہ ہونے کے باعث طلبا ء و طالبات اپنی تعلیم ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

اس وقت کئی طالبات اپنی تعلیم محض سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ادارہ چھوڑ کر جا چکی ہیں جب کہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کا رویہ کرپٹ کردار مزید ادارے کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔

اگر اس ڈائریکٹر پر بھی کوئی تحقیقات ہوں تو پھر لوگ جاوید اقبال کے کرپشن کی داستانیں بھی شاید بھول جائیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اپنے بیان میں مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس یونیورسٹی کی تباہی میں ملوث ڈائریکٹر کو کسی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بٹھا کر اس سے حساب لیا جائے اور وڈھ یونیورسٹی کے لیے تعمیرات کے کام کا آغاز جلد از جلد شروع کیا جائے۔