|

وقتِ اشاعت :   November 23 – 2020

حکومت نے بچوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے کے لیے آرڈیننس لانے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم اور وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری سے ملاقات میں وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ ایسا قانون لایا جائے کہ متاثرہ خواتین یا بچے بلاخوف و خطراپنی شکایات درج کراسکیں۔وزیراعظم نے زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے لیے آرڈیننس لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا سخت قانون لایا جائے جس میں متاثرہ خواتین و بچوں کی پرائیویسی کا خاص خیال رکھا جائے۔

اپنے معاشرے کو محفوظ ماحول دینا ہے۔ آرڈیننس کابینہ کے آئندہ اجلاس میں پیش ہونے کا امکان ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کاکہناتھا کہ بچوں اور خواتین سے زیادتی کیسز سے متعلق حکومت سرعام پھانسی کا قانون نہیں لا رہی۔ وزیراعظم نے زیادتی کے مجرم کی سرعام پھانسی کی مخالفت کردی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سرعام پھانسی کا قانون نہیں بن سکتا، عالمی معاہدوں کے باعث اس طرح کا قانون کیسے بنا سکتے ہیں۔ زیادتی کے کیسز کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ زیادتی کیسز سے متعلق سینٹر بنے گا جو عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرے گا۔

زیادتی کے کیسز میں اب خاندان سمجھوتہ نہیں کر سکتے، زیادتی کیسز کی تحقیقات کے لیے خواتین پولیس بھی ہوگی۔اس سے قبل وفاقی وزیرآبی وسائل اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ خواتین سے جنسی زیادتی کرنے والوں کی سرعام پھانسی کیلئے قانون لاؤں گاجس کی مخالفت زیادہ دیکھنے کو ملی تھی اور عالمی قوانین بھی اس کی اجازت نہیں دیتے مگر ملک میں حالیہ چند ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز پورے ملک سے رپورٹ ہوئے ہیں جنہیں اغواء کے بعد زیادتی اور تشدد کا نشانہ بناکر قتل کردیاجاتاہے۔

بعض ایسے علاقے ہیں جہاں کیسز تو ہوتے ہیں مگر وہ رپورٹ نہیں ہوتے بعض والدین عزت کی ڈر کے باعث معاملے کو چھپاتے ہیں یاپھر ڈر اورخوف کی وجہ سے خاموش ہوجاتے ہیں مگر یہ صورتحال انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور اس میں سب سے بڑی ذمہ داری ریاستی قوانین اور ان پر عملداری کی ہے کہ کس طرح سے ایسے واقعات میں ملوث درندہ صفت انسانوں کو سخت سزا دیکر عبرت کا نشان بنایا جائے اورساتھ ہی علم اور آگاہی کے ساتھ اس کا مقابلہ کیاجائے۔ بارہا اس جانب توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ شعوری بنیادوں پر اس کا مقابلہ بہتر اندازمیں کیاجاسکتا ہے تاکہ عام لوگوں سے وحشی پن اور درندگی جیسی صفات کو ختم کیاسکے۔

اس کے علاوہ ایک بڑا مسئلہ ملک کے اندر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی کمسن لڑکیوں کے ساتھ شادی کابھی سامنے آرہا ہے کہ مختلف آراء اس حوالے سے سامنے آتی ہیں مگر متاثرہ خاندان اس بات سے انکاری ہوجاتے ہیں کہ ان کی بیٹی نے مذہب تبدیل کرکے مسلم سے شادی کرلی ہے۔ جبکہ دوسرے فریقین کی جانب سے یہ کہاجاتا ہے کہ اس میں لڑکی کی رضامندی شامل ہے اور اس قسم کے کیسز سب سے زیادہ سندھ میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق اور سول سوسائٹی سراپااحتجاج دکھائی دیتی ہیں یقینا اس نازک صورتحال پر توجہ دینا اشد ضروری ہے۔

کیونکہ اس سے ملک کا امیج متاثر ہوتا ہے لہٰذا اس حوالے سے اقلیتی برادری کو مکمل فورم دینا چاہئے تاکہ وہ اپنی بات رکھ سکیں اور متاثرہ لڑکیوں کو فوری طور پر سامنے لایاجائے یہ نہ ہوکہ مہینوں بعد ان کو منظر عام پر دوسرا فریق لائے یہ غلط ہے،رضامندی کو چند ہی روز میں سامنے لانا ضروری ہے۔بہرحال معاشرے کی بہتری کیلئے سب کو کردار ادا کرناچاہئے تاکہ منفی رجحانات کے خاتمے میں مددمل سکے۔