|

وقتِ اشاعت :   November 24 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل و جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین منیراحمد خان کاکڑ کی آئینی درخواست پر حکومت بلوچستان سے گوادر میں جنوبی آکڑہ کی 12500 ایکڑ قیمتی سرکاری زمینوں سے متعلق 20 اکتوبر 2006 کو سپریم کورٹ پاکستان کی جانب سے 15 نکاتی احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ آئندہ سماعت 3 دسمبر 2020 کو طلب کرتے ہوئے۔

اس بابت تمام مقدمات کو یکجا کردیا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے احکامات میں کہا گیا ہے کہ وزیراعلی بلوچستان کو لینڈ لیز پالیسی 2000 کے برعکس زمینوں کی الاٹ منٹ کا کوئی صوابدی اختیار حاصل نہیں،حکومت بلوچستان آئندہ اس بابت ایک شفاف پالیسی مرتب کرے تمام نمائندگان سینٹرز،ایم این اے،ایم پی اے اور دیگر شخصیات کو الاٹ کی گئی رہائشی یا صنعتی پلاٹ کی الاٹ منٹ منسوخ کی جاتی ہیں۔

سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو ایسی الاٹ منٹ کے گزشتہ پانچ سال کے آرڈرز کی تحقیقات کرے کس نے لینڈ لیز پالیسی کی خلاف کرتے ہوئے کسی بھی شخصیت کو غیر قانونی طور الاٹ کردئیے ہیں اس کی رپورٹ چار ہفتوں میں رجسٹرار سپریم کورٹ کو جمع کرائی جائے احکامات میں کہا گیا ہے کہ اس وقت خواجہ نعیم سابقہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو غیر قانونی الاٹمنٹ کے کیس میں عدالت کی معاونت کے لئے موجود ہوں۔

گوادر کے اس وقت کے تحصیلدار کا کردار معیار کے مطابق نہیں رہا اس نے پٹواری کی غیر موجودگی میں اپنے ریڈر کے زریعے جلد بازی میں کاروائی مکمل کرے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اس کی غیر ذمہ داری،فرائض سے غفلت پر فوری طور پر تبادلہ کرکے اس کے خلاف چار ہفتوں میں انضباطی کاروائی سے عدالت کو آگاہ کیا جائے اس وقت کے ای ڈی او ریونیو اور بندوبست کے آفیسر کو ان کے ناک کے نیچے سرکاری زمینوں کے غیر قانونی انتقالات و انکی نااہلی و سستی اور مفاد عامہ کے خلاف ہے ان کو ایک ہفتے کے اندر گوادر سے باہر نکالا جائے۔

اور انکے خلاف انضباطی کاروائی سے عدالت کو آگاہ کیا جائے،سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو گزشتہ پانچ سال سے تعینات ای ڈی او ریونیو ز،تحصیلدار،نائب تحصیلدار و پٹواری ضلع اور بندوبست دونوں جگہ پر کے نام عدالت کو فراہم کئے جائیں،ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان گزشتہ پانچ سال کے دوران قاضی،مجلس شوری و ہائی کورٹ کے اس بابت تمام فیصلوں کا رکارڈ پیش کرے۔

اور ان سرکاری حکام جنھوں بروقت کسی فیصلے کے خلاف اپیلیں داخل کرنے میں کوتاہی کرتے ہوئے سرکاری امور میں سمجھوتا کیا ان کی نشاندہی کی جائے سپریم کورٹ نے احکامات دئیے کہ سیکریٹری قانون اس بابت وضاحت کریں کہ گوادر کی زمینوں پر دعوں کے زیر التواء مقدمات کے اندر سرکاری و ریاستی مفاد کے تسلی بخش انتظامات کردئیے گئے ہیں 5 اکتوبر 2006 کو پہلی سماعت کے بعد تمام الاٹمنٹ جو کسی بھی پرائیویٹ شخص کے حق میں کی گئی ہے۔

اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی ایسی الاٹمنٹ کی نقولات رجسٹر سپریم کورٹ کو بھیجی جائے تاکہ اسکی قانونی اصلیت کا جائزہ لیا جائے تمام الاٹ منٹ و خریدو فروخت و تبادلے اور صنعتی پلاٹوں کا تعین کس کے حق میں کیسے کی گئی کتنی رقم کے عوض اور کتنی رقم اس مد میں وصول ہوئی سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو چار ہفتوں کے اندر رجسٹرار سپریم کورٹ اسلام آباد کے دفتر میں داخل کریں۔

رجسٹرار بلوچستان ہائی کورٹ پسنی و گوادر میں الاٹ منٹ کی بابت تصفیہ شدہ یا زیر التوء مقدمات کی بابت چار ہفتوں میں رجسٹرار سپریم کورٹ کو تفصیلات سے آگاہ کریں سیکریٹری قانون اپنی وضاحت دیں کیسے میر نظر کلمتی کے حق میں 4100 ایکڑ کی بابت دو متضاد رائے دی ہیں جو اس وقت کے پرنسپل سیکریٹری کیپٹن فرید احمدز ئی نے مورخہ 8 نومبر 2005 کو لیٹر جاری کیا15-26ستمبر2006کو حاضر سروس یا ریٹائرڈ عدلیہ کے افسروں کو سنگھار ہاوسنگ سکیم 5 گوادر میں الاٹ کئے گئے۔

پلاٹ منسوخ تصور ہونگے سپریم کورٹ کے اس وقت کے جسٹس جاوید اقبال وجسٹس راجہ فیاض احمد نے بیگم زْھرا بی بی بنام حکومت بلوچستان کی سول پٹیشن نمبر 123-کے اندر احکامات و ہدایات جاری کیں آئینی درخواست میں بلوچستان ہائی کورٹ میں کاروائی میں امان اللہ کنرانی درخواست گزار جبکہ حکومت بلوچستان کی طرف سے ایڈوکیٹ جنرل ارباب طاہراور ان کے دو ایڈیشنل و اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل شیہک بلوچ و ظہور بلوچ پیش ہوئے۔

عدالت نے حکومت کے وکلاء کو ہدایت کی آئندہ احکامات تک جنوبی آکڑہ گوادر میں اس کیس سے متعلق زمینوں پر کوئی الاٹ منٹ نہ کی جائے عدالت کو امان اللہ کنرانی نے بتایا یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اس کے روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 187(2)کے تحت اس معزز عدالت کی ایسی ذمہ داری ہے جیسے یہ ان کا اپنا مصدرہ فیصلہ ہو۔