|

وقتِ اشاعت :   November 28 – 2020

ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم نہیں بلکہ بڑھتی جارہی ہے اس وقت اپوزیشن اور حکومت مدِمقابل دکھائی دے رہے ہیں۔ پشاور جلسے کے بعد اب پی ڈی ایم اتحاد کی جانب سے ملتان میں جلسے کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں جس کامیزبان پیپلزپارٹی ہے۔چند روز قبل پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری بھی ملتان میں ہوئی تھی جوبعد میں رہا ہوئے۔ ملتان انتظامیہ کی جانب سے جلسہ نہ کرنے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیاگیا ہے مگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہی مؤقف سامنے آرہا ہے کہ جلسہ ہر صورت کیاجائے گا۔ بہرحال جلسہ جلوس اپوزیشن ہر دور میں کرتی آئی ہے۔

موجودہ حکومتی جماعت نے بھی اپنے اپوزیشن دور میں نہ صرف جلسے کئے بلکہ طویل دھرنے کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے اس دوران بھی یہی کہاجارہا تھا کہ ملکی معیشت کیلئے یہ نیک شگون نہیں بلکہ اپوزیشن اسمبلی فورم میں آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائے مگر ایسا ممکن نہیں ہوا بلکہ احتجاجی جلسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن ہوا یہ کہ احتجاج سے حکومت نہیں گئی البتہ اندرون خانہ سیاسی عدم استحکام ضرور پیدا ہوا اور آج بھی وہی روایت جاری ہے۔ اس بارسابقہ مقتدر جماعت اپوزیشن میں ہے اور وہ کسی طور پر بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے۔

اور حکومت کیلئے موجودہ چیلنجز جلسے جلوس ہیں یا مہنگائی سمیت وہ عوامی مسائل ہیں جو اپوزیشن کے کہنے پر نہیں بلکہ عوام خود اپنے مسائل کو لے کر سڑکوں پر نکل رہی ہے۔حکومت کو درپیش سب سے چیلنج بڑا گڈ گورننس کا ہے اوروہ وعدے ہیں جو موجودہ حکومتی جماعت پی ٹی آئی نے اپنے دور اپوزیشن میں کئے تھے کہ ان کی حکومت کی سب سے اولین ترجیح مہنگائی کا خاتمہ ہے، عوام کو روزگار دینا ہے، کرپشن کو جڑسے ختم کرناہے، عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے، قرض سے ملک کو نجات دلاناہے، بے گھر عوام کو سستا گھر فراہم کرنا ہے مگر بدقسمتی سے جو ہفتہ وار رپورٹ مہنگائی کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔

وہ تسلی بخش نہیں جبکہ دیگر معاملات بھی جوں کے توں ہیں، روزگار دینے کے بجائے ملازمین کو اداروں سے فارغ کیا جارہا ہے، ریڈیو پاکستان اور پی آئی اے اس کی مثالیں ہیں۔یعنی شاید ہی کوئی ایک ایسا وعدہ ہو جوپایہ تکمیل تک پہنچاہو جس سے عوام یہ تسلی کرلے کہ موجودہ حکومت اپنے وعدے پورے کررہی ہے اس لئے حکومت کی سب سے اہم ترجیح گورننس ہے اور عوام کو اپنی پالیسیوں کے ذریعے حکومت کی طرف کرنا ہوگا جو سڑکوں پر نکل رہی ہے ان کا بنیادی مسائل وہی ہیں جو ستر سالوں سے انہیں درپیش ہیں، ہر دور میں انہیں محض خواب دکھائے گئے مگر عملاََ ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کا پارٹی ترجمانوں اور رہنماؤں کے اجلاس کے دوران کہناتھا کہ اپوزیشن ہوش کے ناخن لے یہ وقت جلسوں کا نہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسوں پر تصادم نہیں چاہتے، دنیا کورونا سے لڑ رہی ہے اور یہاں قوم کا تماشہ بنایا جا رہا ہے، ملتان میں کورونا خطرناک حد تک پھیل رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کورونا کیسز روز بروز بڑھ رہے ہیں، لوٹی ہوئی رقم کو بچانے کے لیے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کو پی ڈی ایم کے جلسوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اجلاس میں معاشی صورتحال اور مہنگائی پر وفاقی وزیر حماد اظہر نے بریفنگ دی۔حماد اظہر نے اجلاس میں بتایا کہ چینی یوٹیلٹی اسٹورز میں 68 روپے فی کلو دستیاب ہے، اس بار کرشنگ میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔ چینی پورے ملک میں وافر موجود ہے۔بہرحال حماد اظہر سے قبل بھی دیگر وزراء کی باتیں بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ وہ مہنگائی کے متعلق کیا مؤقف رکھتے تھے لہذا حکومت کی توجہ اس وقت گورننس پر ہونی چاہئے تاکہ عوام کو کم ازکم عملی اقدامات سے قائل کیاجاسکے۔