بلوچستان میں گیس کا بحران بدستور جاری ہے سرد موسم کے دوران بیشتر علاقوں میں گیس پریشر میں کمی اور غائب ہونے کے حوالے سے شکایات سامنے آتی ہیں لوگ شدیدسردی کے دوران گیس نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں اور عوام کا بس ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ انہیں گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ سوئی گیس حکام کی جانب سے آئے روز طفل تسلیاں دی جاتی ہیں اور مختلف حیلے بہانے کا سہارا لیتے ہوئے گیس فراہم نہیں کی جاتی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف اوجی ڈی سی ایل بلوچستان کے مختلف علاقوں سے گیس دریافت کرنے کی خوشخبری سناتی ہے۔
لیکن عوام اس بات سے بالکل مطمئن دکھائی نہیں دیتی کہ اگر گیس دریافت ہورہی ہے تو اس سے بلوچستان کے عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ سوئی کے مقام سے کئی دہائیوں سے نکلنے والی گیس بھی یہاں کی بدقسمت عوام کے نصیب میں نہیں ہے المیہ یہ ہے کہ ڈیرہ بگٹی ضلع کے عوام اپنے ہی علاقے کی گیس سے محروم ہیں تو دیگر اضلاع کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں صورتحال کیا ہوگی۔ گزشتہ دنوں اوجی ڈی سی ایل کی جانب سے بلوچستان کے علاقے موسیٰ خیل سے گیس دریافت ہونے کی نوید سنائی گئی تھی، اس سے قبل قلات سے بھی گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے تھے یقینا اسے کارآمد بنانے کیلئے وقت درکار ہوگا۔
مگر کیا یہ بات یقینی بنائی جائے گی کہ بلوچستان سے دریافت ہونے والی گیس پر پہلا حق یہاں کے عوام کو دی جائے گی اور عوام کا یہ دیرینہ مسئلہ حل کردیا جائے گا، اس کا جواب نفی میں ہی ملے گا کیونکہ زمینی حقائق سامنے ہیں کہ 50ء دہائی قبل سوئی سے نکلنے والی گیس سے آج بھی بلوچستان کے بیشتر اضلاع محروم ہیں حالانکہ بلوچستان میں آبادی کا تناسب دیگرصوبوں سے کم ہے تو اس طرح یہاں گیس کا استعمال بھی کم ہوگا،نیز بلوچستان میں کوئی بڑی صنعتیں بھی نہیں ہیں کہ جہاں گیس کی فراہمی کی وجہ سے عام لوگوں کو گیس کی فراہمی میں دشواری کا سامنا کرناپڑے۔
یا پھر بڑے بڑے سی این جی اسٹیشنز بڑی تعداد میں بلوچستان میں موجود نہیں جس سے گیس کی رسدوطلب میں مسئلہ درپیش ہو جبکہ ملک کے دیگر صوبوں میں نہ صرف بڑی صنعتیں موجود ہیں بلکہ سی این جی اسٹیشنز بھی بہت زیادہ ہیں جہاں پر گیس کی سپلائی زیادہ ہوتی ہے مگر وہاں پر گیس کی کمی کا مسئلہ کم دیکھنے کو ملتا ہے۔یہاں پر بلوچستان کے عوام کا احتجاج اور شکوہ جائز بنتا ہے کہ ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہورہی ہے کہ انہیں اپنے ہی وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے جبکہ دیگر صوبے بھرپور استفادہ کررہے ہیں۔ المیہ تو یہ بھی ہے کہ بلوچستان سے سب سے زیادہ اور اچھی کوالٹی کی گیس نکلنے کے باوجود اس کی قیمت کم دی جارہی ہے۔
جبکہ سندھ اور پنجاب سے نکلنے والی گیس کم کوالٹی کی ہونے کے باوجود اس کی قیمتیں زیادہ ہیں۔دوسرا بڑا مسئلہ سوئی گیس کی مدمیں جو واجبات وفاق پر ہیں وہ بھی نہیں دیئے جاتے جبکہ سوئی گیس کا ہیڈآفس تک بلوچستان میں موجود نہیں، منتخب نمائندگان خود اس عمل پر سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں مگر کسی کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی کہ بلوچستان کے ساتھ کم ازکم اتنا تو انصاف کیاجائے کہ ان کے اپنی ہی سرزمین سے نکلنے والی گیس سے ان کو تھوڑا بہت فائدہ پہنچایاجائے۔یہاں تو الٹی گنگا بہتی ہے گیس کے بھاری بھرکم بلز بلوچستان کے غریب عوام پر تھونپ دیئے جاتے ہیں۔
لیکن گیس فراہم نہیں کی جاتی،خواتین تک سڑکوں پر آکر زورقطار فریاد کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ خدارا اس شدید سرد موسم میں کم ازکم ان پر رحم کرکے گیس تو فراہم کی جائے لیکن ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے جبکہ سوئی گیس حکام کا رویہ بھی انتہائی نامناسب ہوتا ہے، وہ مزید ہٹ دھرمی کامظاہرہ کرتے ہوئے غریب عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے کے بجائے ان پر دباؤ اور بوجھ بلز کے ذریعے ڈالتے ہیں اور ان کی جانب سے گیس چوری کا جواز پیش کیاجاتا ہے اگر کوئی اس گھناؤنے عمل میں ملوث ہے تو ان کے کنکشنز نہ صرف کاٹے جائیں بلکہ ان کوسزادی جائے۔
مگر سرد موسم میں غریب عوام کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے۔خدارا ایسٹ انڈیا کمپنی جیسی رویہ ترک کرکے سوئی گیس کمپنی اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے بلوچستان کے عوام کو گیس کی فراہمی یقینی بنائے اور وفاقی حکومت بھی ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے سوئی گیس کمپنی کو اس کا پابند بنائے کہ بلوچستان میں شدید سردی کے دوران نہ صرف گیس فراہم کی جائے بلکہ بلز کے حوالے سے بھی ان کے ساتھ رعایت کی جائے کیونکہ یہ گیس انہی کی سرزمین سے نکلتی ہے اور اس پر پہلا حق اوریلیف یہاں کے باسیوں کا ہے۔