|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2020

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں انتہائی اہم پیشرفت ہوئی ہے۔غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان حکومت اور طالبان بلآخر 19 سالہ طویل جنگ کے بعد اب پہلی مرتبہ تحریری معاہدے کی طرف آگئے جس کی تصدیق افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں نے کی اور کہا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے ابتدائی معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔افغان حکومت کے مذاکرات کار نادر نادیری کاکہناہے کہ مذاکرات کے ابتدائی اعلامیہ سمیت طریقہ کار کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور اب جلد ایجنڈے پر مذاکرات کا آغاز ہوگا۔

دوسری جانب طالبان ترجمان نے کہاہے کہ حکومت سے مذاکرات میں پیشرفت ہوئی ہے۔طالبان اور حکومتی نمائندوں کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک جوائنٹ ورکنگ کمیٹی کو امن مذاکرات کے لیے ایجنڈے کے موضوع کا ڈرافٹ تیار کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان کاکہناہے کہ طالبان اور حکومتی نمائندوں کے درمیان معاہدہ جامع سیز فائر اور افغان عوام کے بنیادی مطالبات سمیت مرکزی مسائل پر مذاکرات کے آغاز کی طرف ایک قدم ہے۔علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی دونوں فریقین کو پیشرفت پر مبارکباد دی۔

اور کہاکہ امریکا تشدد اور سیز فائر میں کمی کے لیے تمام فریقین کو راضی کرنے کے لیے مزید محنت کرے گا۔ اس سے قبل دوحہ میںرواں سال جنوری کے شروع میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان 18 سالہ طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے،جنگ بندی کے معاہدے پر افغان طالبان کی جانب سے ملا عبدالغنی برادر اور امریکاکی جانب سے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے دستخط کئے تھے جوچار نکات پر مشتمل تھا جس میںمعاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا۔

ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔

معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔بہرحال طالبان اورامریکہ کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان معاملات ابتدائی دنوںمیں بہتر طریقے سے آگے نہیںجارہے تھے جس میں طالبان قیدیوں سمیت دیگر مسائل درپیش تھے مگر اب جو طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات معاہدہ میں پیشرفت ہوئی ہے یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے اور اب افغان حکومت اور طالبان مشترکہ طور پر افغان سرزمین کے حوالے سے مشترکہ فیصلہ کرینگے۔

خاص کر حالیہ پُرتشدد واقعات جس طرح سے متواتر طریقے سے ہورہے تھے ان میں کمی آئے گی کیونکہ امریکہ کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کے باوجود بھی افغانستان میں واقعات رونما ہورہے تھے مگر طالبان نے بعض حملوں کی واضح تردید کی ہے کہ وہ ان حملوںمیں ملوث نہیںہیں ۔یہ بات بالکل صاف ہے کہ طالبان کے علاوہ بھی افغانستان میں مختلف گروپس کام کررہے ہیں جو وہاں کے امن کو سبوتاژ کررہے ہیں۔

مگر حالیہ مذاکرات کے ذریعے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ ان واقعات میں خاطر خواہ کمی آئے گی اور افغانستان میں امن کے نئے دورکاآغاز ہوگا جس کا ہمارے خطے سے براہ راست سیاسی، معاشی، دفاعی تعلق ہے جو کہ بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ آئندہ چند ماہ انتہائی اہم ہیں جو مذاکرات کے نتائج پر منحصر ہونگے یقینا اگر یہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھے تو خطے میں مثبت تبدیلی یقینا آ ئے گی۔