مسلم لیگ ن کی جانب سے13 دسمبرکے جلسے سے قبل عوامی رابطہ مہم، ریلیوں اور جلسوں کا شیڈول جاری کردیاگیا ہے۔ماڈل ٹاؤن لاہور میں پارٹی سیکرٹریٹ میں مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم عمران خان کا چیلنج قبول کرتے ہیں، مینار پاکستان پر ان سے بڑا جلسہ کرکے دکھائیں گے۔ جلسے کوکامیاب بنانے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کردی ہے، مریم نواز شہریوں کو متحرک کرنے خود شہرکے دورے کریں گی اور مختلف جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کریں گی، اس کے علاوہ وہ جاتی عمرہ سے نکلنے والی موٹر سائیکل ریلی کی قیادت بھی کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مینار پاکستان پر جلسہ نہ کرنے دیا گیا تو پورے لاہور میں جلسے ہوں گے۔سائرہ افضل تارڑ کاکہنا تھاکہ مریم اگرجیل گئیں تو سیاسی طور پرمتحرک ہونے کی وجہ سے جائیں گی کسی جرم کی وجہ سے نہیں،عمران خان اب سوچ لیں انہوں نے عزت سے گھر جانا ہے یا عوام ان کو نکال باہر کریں۔ن لیگی رہنماؤں کا کہنا تھاکہ سلیکٹڈ حکومت کی وجہ سے آج پاکستان مشکلات کا شکار ہے، عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا بھی عذاب ہوچکا ہے۔واضح رہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے13 دسمبر کو لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں جلسے کا اعلان کیا گیا ہے۔
جس کی میزبانی ن لیگ کرے گی۔جنرل سیکرٹری ن لیگ احسن اقبال کے مطابق13 دسمبر کو ملکی تاریخ کا بڑا جلسہ ہو گا جس سے ن لیگ کے قائد نوازشریف بھی خطاب کریں گے۔دوسری جانب وفاقی حکومت نے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لاہور جلسے کو نہ روکنے کا فیصلہ کیاہے۔ وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ ملتان شہر کو اکھاڑا بنائے رکھا گیا، اس سے جمہوریت کی کوئی خدمت نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کو وباء لگنے کا خطرہ ہے، پی ڈی ایم جلسے کے ساتھ جو ملتان میں ہوا وہ لاہور کے جلسے میں نہیں ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے جلسے کیلئے کسی کو نہیں روکا جائے گا جو جانا چاہتا ہے جائے لیکن جلسوں کے بعد رہنماؤں اور منتظمین کے خلاف ایف آئی آر کی صورت میں قانونی کارروائی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پابندی کے باوجود اگر کوئی جلسوں پر بضد ہے تو پھر عوام ان کا خود احتساب کریں گے، ہم نہ جلسوں سے گھبراتے ہیں نہ گھبرائیں گے۔شبلی فراز کا کہنا تھا کہ مریم نواز سچ بول ہی نہیں سکتیں، اْنہوں نے جو باتیں کیں جھوٹ پر مبنی تھیں، ن لیگ کی لیڈرشپ کوشش بھی کرے تو بھی سچ نہیں بولا جاتا، ان کی سیاست جھوٹ پر مبنی ہے۔
بہرحال ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے حکومت اوراپوزیشن کے درمیان سیاسی جنگ شدت اختیار کررہی ہے مگر برف پگھلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا حالانکہ اس سے قبل متعدد بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈائیلاگ کے حوالے سے بیک ڈور بات چیت ہورہی ہے گوکہ اس کی تصدیق کسی طرف سے نہیں کی گئی بلکہ وزیراعظم عمران خود کہہ چکے ہیں اپوزیشن کے جلسے صرف این آر او لینے کیلئے دباؤ بڑھانے کے سوا کچھ نہیں اور ہم کسی صورت این آراو نہیں دینگے بلکہ کرپشن میںملوث افراد کو جیل بھیجیں گے ۔
دوسری جانب شیخ رشید کی دلچسپ باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ شہباز شریف بات چیت کیلئے تیار ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سیاسی شخصیات مذاکرات چاہتے ہیں تو انہیں جیل میں کیوں رکھا گیا ہے ،ان پر کس طرح کا دباؤ ڈالاجارہا ہے۔ بہرحال اس وقت جو کچھ ملکی سیاست میں ہورہا ہے اس حوالے سے دونوں اطراف سے مختلف دعوے سامنے آرہے ہیں اور جنوری کے مہینے کاذکر زیادہ کیاجارہا ہے کہ یہ انتہائی اہم ہے مگر اس میں خاص کیا ہوگا یہ ا بھی کیموفلاج میں ہے واضح کچھ نہیں ہے کہ جنوری کے مہینے میں کون سی بڑی تبدیلی آئے گی۔
اقتدارکی یا پھر گرفتاریوں کا مہینہ ثابت ہوگا ؟جس طرح کی صورتحال بنتی جارہی ہے اس سے ایک بات واضح ہے کہ سرد موسم میں سیاسی ماحول ملک میں گرم رہے گا اور جب تک نیشنل ڈائیلاگ کی طرف کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوتی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور پنجاب میں ہونے والے مسلم لیگ ن کے جلسوں کو بھی بہت اہمیت دی جارہی ہے کہ شایدن لیگ اس سے کچھ نتائج اپنے حق میں برآمد کرنا چاہتی ہے مگر یہ صرف قیاس آرائیاں ہیں کیونکہ حکومت اوراپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف سخت لہجوں میں تنقیدی وار جاری ہیں۔
جس کا خاتمہ کس موڑ پر ہوگا اس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں اس سے قبل کچھ کہنا کہ حکومت جارہی ہے یا پھر بڑی شخصیات گرفتار ہونگی اور بہت بڑا ہنگامہ برپا ہوگا یہ محض باتیں ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ آئندہ چند روز سیاسی نتائج کی برآمدگی اور نقشہ کو واضح کرنے کیلئے اہم ہیں اور فیصلہ کس کے حق میں ہوگا یہ کہا نہیں جاسکتا۔