صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے خیبر ٹیچنگ اسپتال میں آکسیجن کی مسلسل فراہمی نہ ہونے پر کورونا کے 7 مریض جان کی بازی ہارگئے۔اسپتال انتظامیہ کے مطابق مریضوں کو آکسیجن کی سپلائی بروقت نہ ملنے کا واقعہ اتوار کی شب پیش آیا، آکسیجن کی مسلسل عدم فراہمی سے مریض دم توڑ گئے۔اسپتال حکام نے بتایا کہ آکسیجن سلنڈر بروقت نہ پہنچنے سے دیگر وارڈز کے مریض بھی متاثر ہوئے۔خیبر ٹیچنگ اسپتال کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسپتال کو راولپنڈی سے آکسیجن سلنڈر فراہم کیے جاتے ہیں لیکن ناگزیر وجوہ کی بناء پر راولپنڈی سے آکسیجن کے سلنڈر بروقت نہ پہنچائے جا سکے۔
اسپتال حکام کے مطابق آئسولیشن وارڈ میں 5 مریض اور میڈیکل آئی سی یو میں ایک مریض جاں بحق ہوا جبکہ آئسولیشن وارڈ میں جاں بحق ہونے والوں میں 2 خواتین بھی شامل ہیں۔اسپتال حکام نے بتایا کہ جاں بحق 5 مریضوں کا تعلق صوبے کے مختلف اضلاع چارسدہ، شانگلہ، نوشہرہ اور پشاور سے ہے۔دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت نے خیبر ٹیچنگ اسپتال واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو 10،10 لاکھ روپے مالی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی کامران بنگش کاکہناہے کہ خیبر ٹیچنگ اسپتال واقعے میں 6 افراد جاں بحق ہوئے جس کے بعد 7 افراد کو ابتدائی تحقیقات کے بعد معطل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تفصیلی رپورٹ 5 دن میں آجائے گی جس میں ذمے داروں کا تعین اور ان کے خلاف ایکشن ہوگا۔وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کاکہنا ہے کہ خیبر ٹیچنگ اسپتال خود مختار ہے اور بورڈ آف گورنر کے تحت کام کرتاہے، بورڈ آف گورنر حکومت کو جواب دہ ہے، ضروری ہے کہ بورڈ آف گورنرز ایکشن لیں۔ رپورٹ میں اسپتال کی خامیاں چھپانے کی کوشش نہیں کی گئی، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹرکچرل نقائص ہیں اور صوبے میں ہیلتھ سسٹم انتہائی بہتر نہیں۔ گزشتہ روز آکسیجن کی کمی رات کو ہوئی جس کی بروقت نشاندہی نہیں ہوئی، ایسے واقعات ہوں گے تو ہمارے سرشرم سے جھکیں گے۔
لیکن تنقید برداشت کرنے کے باوجود سسٹم کو ٹھیک کرنا ہے کیونکہ ہیلتھ سسٹم مضبوط ہوگا تو جانیں بچیں گی، دنیا میں اسپتالوں کو چلانے کا یہ طریقہ نہیں ہے، اگر مطمئن نہ رہے تو حکومت ایم ٹی آئی کو ٹیک اوور کر سکتی ہے۔بہرحال پشاورخیبرٹیچنگ اسپتال کا واقعہ انتہائی دلخراش ہے اور جس طرح کی غفلت برتی گئی یقینا ناقابل معافی ہے۔ جس طرح پھرتی سے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی گئی ہے یقینا قابل ستائش ہے کیونکہ کوتاہی چھپانے یا اس کا دفاع کرنے سے بڑے سانحات آئندہ بھی جنم لے سکتے ہیں مگر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے یہاں صحت کانظام اتنا بہتر نہیں ہے کہ جسے ماڈل کے طور پر پیش کیاجاسکے۔
صرف خیبرپختونخواہ نہیں بلکہ ملک کے دیگر اسپتالوںمیں بھی اسی طرح کی صورتحال دیکھنے کوملتی ہے مگر یہ ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ کم ازکم ہمارے یہاں صحت جیسی بنیادی سہولت کی بہتری کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کا زیاں اس طرح نہ ہوسکے ۔نہ جانے ایسے کتنے ان گنت واقعات رونما ہوتے ہیں جوکہ رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور وہ بھی کورونا کے اس وباء کے دوران جس پر زیادہ توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسپتالوں میں انتظامات ہر لحاظ سے بہتر ہوسکیں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے عملہ سمیت مشینری اور آلات کا ہونا ضروری ہے۔
تاکہ سیریس مریضوں کو بروقت علاج ومعالجے میں دقت کا سامنانہ کرناپڑے ۔ امید ہے کہ اس دلخراش واقعہ کے بعد حکومت تمام اسپتالوںمیں انتظامات کو بہتر بنانے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرے گی تاکہ دوبارہ اس طرح کوواقعات جنم لینے سے روکا جاسکے ۔