|

وقتِ اشاعت :   December 9 – 2020

کسی بھی مہذب معاشرے کی ترقی کا دارومدار کرپشن سے پاک نظام پر ہے اس کے بغیر ترقی اور تعمیر کے بنیادی اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔ ملک میں معاشی نظام کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ کرپشن ہے شاید ہی کوئی ایسا دور گزرا ہو جس میں کرپشن نہ کی گئی ہو یہاں تک کہ کرپشن کی وجہ سے منافع بخش قومی ادارے خسارے میں چلے گئے اور قومی خزانہ پر بوجھ بن گئے ۔جو ادارے پہلے ملک کی معیشت میںاہم کردار ادا کرتے تھے ،دیوالیہ ہوچکے ہیں کہ اب ان کی نجکاری کی نوبت آئی ہے ۔بہرحال دیمک کی طرح جس طرح ملک کو کرپشن کے ذریعے کمزور کیا گیا۔

اس کی مثال نہیں ملتی اس لئے آج ملک میں معاشی صورتحال نہ صرف ابتر ہے بلکہ اس قدر ملک قرضوں میں ڈوب چکا ہے کہ قرض اتارنے کیلئے مزید قرض لینا پڑتا ہے مگر یہی قرض سود کے حساب سے مزید بوجھ بن کر اژدھا کی صورت سامنے آتے ہیں جس کا خمیازہ عوام مہنگائی سمیت مختلف ٹیکسز کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ملک میں شفاف ٹیکس دینے کا نظام تک نہیں، بڑی سیاسی شخصیات اور کاروباری حضرات ٹیکس سے بچنے کیلئے مختلف طریقوں سے اپنے اثاثے چھپائے رکھتے ہیں جن کے گوشوارے ظاہر نہیں کیے جاتے اور جو گوشوارے سامنے لائے جاتے ہیں۔

وہ حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔ جب سیاستدان خود اقتدار میں رہ کر ملک کے ساتھ مخلص نہیںہوتے تو کس طرح سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہم کرپشن سے پاک معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہونگے جس سے ملک میں بدعنوانی اور کرپشن کا مکمل خاتمہ ہوسکے ۔بدقسمتی سے سیاست نے یہاں تجارت کا روپ اختیار کرلیا ہے اور ہر سیاستدان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر لوٹ کھسوٹ کے ذریعے جائیدایں بنائے اور اس کیلئے انہیں آفیسران کی سہولت کاری باآسانی میسر آتی ہے اور یہ دہائیوں سے سلسلہ چلتا آرہا ہے ۔ بلوچستان میں تو کرپشن کے ریکارڈ توڑے گئے ہیں۔

جتنے میگامنصوبے یا ترقیاتی اسکیموں کے لیے یہاں رقم مختص ہوئی اس میں سے آدھی رقم بھی بلوچستان کے عوام پر خرچ نہیں کی گئی بلکہ وزراء اور ایم پی ایز کی جیب میں سارے پیسے چلے گئے ،جبکہ کرپٹ آفیسران راتوں رات ارب پتی بن گئے۔ گزشتہ روز انسداد بدعنوانی کے عالمی دن کی مناسبت سے تقریب سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی تہواروں سمیت جشن آزادی ،عالمی یوم بدعنوانی اور دیگر مواقعوں کے دن منائے جاتے ہیں، ان دنوں کے موقع پر ہی ہمیں مقاصد یاد آتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔

معاشرے کی بہتری کے لئے ہمیں کھل کر بات کرنا ہو گی، وزیراعلیٰ بلوچستان کاکہناتھا کہ ایک حکومت نے ریکوڈک کا معاہدہ کیا، دوسری حکومت نے معاہدہ ختم کیا، ہماری حکومت اس معاہدے کو بھگت رہی ہے، معاہدہ ختم کرتے وقت ہم بھول گئے کہ اس کا جرمانہ ادا کرنا پڑسکتا ہے، اس غریب قوم کو ریکوڈک کیس میں اب 7 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑ رہا ہے، بدعنوانی محض پیسے کی لوٹ کھسوٹ کا نام نہیں بلکہ خلاف ضابطہ احکامات کا نام بھی ہے ، بدعنوانی کا کیس ہمیشہ سابق حکومت پر ڈال کر ذمہ داری پوری کر لی جاتی ہے،منصوبوں کو غیر ضروری طور پر طول دینا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔

اپنے معاشرے میں سہولیات کی فراہمی یقینی نہ ہوئی تو لوگ غلط راستہ اختیار کرینگے، کرپشن کا قلع قمع کرنے کے لئے سسٹم کو بہتر کرنا ہو گا، نظام اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ پیسے کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، ابتر نظام نے ملک کے حالات کو خراب کیا ہے ۔بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی اس بات سے مکمل اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ہمارا نظام اس قدر کرپٹ ہوچکا ہے کہ بغیر کسی لالچ اور لین دین کے کوئی کام نہیں کیاجاسکتا مگر اس حوالے سے خود وزیراعلیٰ بلوچستان کو اقدامات اٹھانے ہونگے کیونکہ اس وقت وہ صوبہ کے ایگزیکٹیو پوزیشن پر ہیں اور تمام تراختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ۔

مزید صوبے کو کرپشن سے نہ صرف بچاسکتے ہیں بلکہ ہمارے جو منافع بخش منصوبے چل رہے ہیں ان کے آئینی رقم کی وصولی کے حوالے سے اپناکردار ادا کرسکتے ہیں، ساتھ ہی ترقیاتی اسکیمات جو سست روی کا شکار ہیں جس کی وجہ رقم بٹورنے کے سواکچھ نہیں ،اس پر ذمہ داری کے ساتھ ایکشن لینگے تاکہ بلوچستان جیسے پسماندہ صوبہ کی جائز رقم اور اسکیمات کا فائدہ عوام کو براہ راست پہنچایاجاسکے ۔امید ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عملاََ کرپشن جیسے حساس نوعیت کے مسئلے پر مخلصانہ کرداراداکرینگے تاکہ بلوچستان سے کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنایاجاسکے۔