|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2020

مستونگ: بی ایس ڈی آئی اجالا فاونڈیشن کے زیر اہتمام پریس کلب مستونگ میں خواتین پر صنفی تشدد واقعات کے خلاف خواتین کا چارٹرڈ آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا۔اس موقعے پر بی ایس ڈی آئی کے پروگرام آفیسر محمد حسنین شاھوانی بی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے ممبر جہانگیر منظور بلوچ پریس کلب۔

مستونگ کے صدر فیض درانی نے سراوان پریس کلب مستونگ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ خواتین اور بچوں پر تشدد و زیادتی کے واقعات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان واقعات کے روک تھام کیلئے عوام سے آواز اٹھانے کی اپیل کی کہ وہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں و خواتین و بچوں پر تشدد اور جنسی ہراسانی کے واقعات کے تدارک کیلئے تعلیم کو عام کریں۔

انھوں نے کہا کہ گوادر کو چاروں اطراف سے بند کرنا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے انسانوں کیلئے سہولیات فراہم کرنا حکمرانوں کی زمہ داری ہے مگر یہاں انسانوں کو قیدی بنانے کے منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔

جو کہ انسانی حقوق کے سخت خلاف ہیں۔اس موقع پر اساتذہ وکلا رہنما طالب علم رہنما و دیگر بھی موجود تھے۔انھوں نے کہاکہ خواتین ،نوجوان لڑکیوں اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر حکومت پاکستان ان وحشیانہ واقعات کی روک تھام اور تمام دھاروں میں خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کیلئے قانوں سازی کرے اور ان قوانین پر فوری اور سختی سے عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے ۔

خواتین لڑکیوں اور بچوں کے تحفظ کویقنی بنانے کیلئے دیگر اہم اور ضروری اقدامات اور ادارے بنائیں اور صنفی تشدد کا شکار خواتین و بچوں کیلئے تھانوں میں خواتین ڈسک متعارف کریں اور تحفظ کے پناہ گاہوں،دارلالمان کی تعداد بڑھانے اور دارلالمان کے بجٹ میں اضافے کے ساتھ تحفظ یقینی بنانے اور انہیں سہولیات پہنچانے کیلئیاقدامات کی فوری اور اشد ضرورت ہیں۔

انھوں نے کہاکہ فوجداری انصاف کا نظام موثر بناجائے تاکہ صنفی بنیادوں پر ہونے والے تشدد سے متعلق مقدمات کو تفتیڈ سے لے کر سزا تک شفافیت سے نمٹایاجائے۔اور خواتین حکومت جنسی حساسیت پر مبنی نصاب متعارف کریں،انھوں نے مطالبہ کیاکہ سرکاری و نجی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 کے تحت انسداد جنسی تشدد کمیٹیوں کی تشکیل اور سختی سے نفاذ کو یقنی بنائیں۔

انھوں نے سول سوسائٹی تنظیموں اور سرکاری و نجی ادارے ایسے حساس معاملات کے بارے میں مل کر ملک گیر آگاہی مہم چلائے۔۔اس دوران مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے مطالباتی چارٹر پر دستخط بھی کیا۔