|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2020

کوئٹہ: احتساب عدالت کوئٹہ نے سابق چیئرمین بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی انور سادات کی بریت کی درخواست مسترد کردی احتساب عدالت کوئٹہ کے جج منور شاہوانی نے سابق چیئرمین بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جمع کرائی گئی بریت کی درخواست ملزم کے خلاف ٹھوس شواہد کی روشنی میں مسترد کردی ہے۔

نیب بلوچستان کی جانب سے پراسیکیوٹر ضمیر چھلگری نے کیس کی پیروی کیہے واضح رہے کہ نیب بلوچستان نے ژوب میر علی خیل روڈ تعمیراتی منصوبے میں کروڑوں روپے کی مبینہ کرپشن کیس میں سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری ڈویلمپنٹ علی ظہیر ہزارہ، سابقہ چئیرمین بی ڈی اے سادات انور اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔ چئیرمین بی ڈی اے نے دیگر ملزمان کی ملی بھگت سے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے بننے والے ژوب میر علی خیل کھجوری کچھ سڑک کا منصوبہ غیر قانونی طور پر محکمہ سی اینڈ ڈبلیو سے لے کر بی ڈی اے کے سپرد کیا

اور پروجیکٹ کی لاگت کو1ارب68 کروڑ سے بڑھا کر11 ارب کر کے ٹھیکیداران کو ناجائز منافع پہنچایا۔نیب بلوچستان کی بروقت کاروائی کی وجہ سے اس وقت کے چیف منسٹربلوچستان نے مزکورہ سڑک کے تخمینے کی جانچ کے لئے تجربہ کار ایکسپرٹس کی ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے انکشاف کیا کہ مزکورہ سڑک کا تخمینہ لاگت حقیقت سے بڑھ کر ہے اور کمیٹی کی سفارشات پر مزکورہ سڑک کا تخمینہ لاگت 11 ارب سے کم کر کے6 ارب پرلایا گیا جس سے سے سرکاری خزانے کو تقریبا 5 ارب کے نقصان سے بچا لیا گیا۔ دوران تفتیش یہ ثبوت نیب کے سامنے آئے کے سادات انور سابقہ چئیرمین بی ڈی اے نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا

اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مزکورہ سڑ ک کی کنسلٹنسی کا ٹھیکہ بغیر کسی اخباری اشتہار کے کیمیوز کنسلٹنٹس کو دیا۔مزید برآں ملزمان نے ملی بھگت سے مزکورہ پروجیکٹ میں پل بنانے کا ٹھیکہ ایم این کنسٹرکشن نامی کمپنی کو بلوچستان گورنمنٹ کے مقرر کردہ ریٹ سے زائد ریٹ پر دیا جس سے سرکاری خزانے کو تقریبا 4 کروڑ40 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا اور بدلے میں اس کمپنی کے مالک سے بھاری رقم بطور رشوت سادات انور سابقہ چئیرمین بی ڈی اے نے حاصل کی۔ دوران تفتیش ایم این کنسٹرکشن کمپنی کے ما لک نے اپنا جرم قبول کیا اور رضا کارانہ طور پر4 کروڑ40 لاکھ روپے نیب کو واپس کر دیے۔ ملزم نے اس دوران احتساب عدالت کوئٹہ میں بریت کی درخواست دائر کی جسے نیب کی تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ اور پراسیکیوٹر نیب بلوچستان کے دلائل کی روشنی میں خارج کر دیا گیا ہے۔