|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2020

وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیٹرولیم بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی گئی۔وزیراعظم نے پیٹرول بحران میں ملوث کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا اور کہا کہ پیٹرول بحران میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہوگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے انکوائری رپورٹ کی سفارشات کاجائزہ لینے کیلئے تین رکنی کمیٹی قائم کردی۔کمیٹی میں وفاقی وزیر شفقت محمود، شیریں مزاری اور اسد عمر شامل ہوں گے۔اسلام آباد میں وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں پیٹرولیم بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کی سفارشات پربحث کی گئی۔

پیٹرول بحران رپورٹ پر وفاقی وزراء نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ متعلقہ وزارت نے پیٹرول بحران پرکیا کام کیا؟ بحران آنے کے بعد وزارتوں نے کیا ذمہ داریاں نبھائیں؟وزراء نے مطالبہ کیا کہ بحران میں ملوث کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کیے جائیں، وزیراعظم نے حتمی سفارشات آنے کے بعد سخت کارروائی کا عندیہ دیا۔واضح رہے کہ پیٹرول کی قلت پر بنائے گئے پیٹرولیم کمیشن کی تحقیقات میں سیکرٹری پیٹرولیم اور ڈی جی آئل کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔انکوائری کمیشن کا کہنا ہے کہ ڈی جی آئل غیر قانونی طور پر کوٹہ مختص کرنے میں ملوث ہیں۔

ان کے علاوہ سیکرٹری پیٹرولیم کے بحران میں کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیاجا سکتا، کمیشن نے دونوں کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پیٹرول بحران کی بڑی وجہ تیل کی درآمدات پر پابندی بھی تھی،پیٹرول عالمی مارکیٹ میں سستا ہوا تو پابندی کی سفارش کی گئی، مئی اورجون میں پیٹرول خریدا گیا تاہم اس کی سپلائی روک دی گئی، حکومت کی جانب سے قیمتیں بڑھانے تک کمپنیوں نے تیل کی سپلائی روک دی۔ انکوائری کمیشن نے بعض مارکیٹنگ کمپنیوں کے لائسنس کو غیر قانونی قرار دے دیا اور یہ کہا کہ کمپنیوں کے پاس آئل ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔

20 دن تک تیل ذخیرہ نہ کرنے کی مجرمانہ غفلت کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا،کمپنیوں سے 20 دن تک تیل ذخیرہ نہ کروانا آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کی ناکامی ہے۔کمیشن نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل15دن کی بجائے30دن میں کرنے کی سفارش کردی ہے اور وزارت پیٹرولیم میں مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے تاکہ کمپنیوں سے روزانہ اورماہانہ بنیادوں پر ذخیرے سے متعلق ڈیٹا حاصل کیا جائے۔رپورٹ میں کمیشن کی جانب سے اوگرا کو تحلیل کرنے کی سفارش بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ 6مہینوں میں قانون سازی کرکے اوگرا کو تحلیل کیا جائے۔

خیال رہے کہ رواں سال یکم جون کو ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے پیٹرول نایاب ہوگیا تھا اور دوبارہ قیمتوں میں اضافے تک پیٹرول پمپس پر پیٹرول کی قلت رہی تھی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ چینی اور آٹا بحران کے دوران جو کمیشنیں بنائی گئیں تھیں جن کی تحقیقات کے بعد نام بھی سامنے آئے تھے اورکسی کو سزا نہ ملنے کا عمل بھی سب کے سامنے ہے۔ یہ حکومت کیلئے سب سے بڑا امتحان ہے کہ وہ ملوث افراد کیخلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائے گی یا پھر اس معاملے کو بھی چند دنوں کے بعد سرد خانے کی نذر کردیاجائے گا۔

اگراس بار بھی ایسا ہوا تو یقینا یہ حکومت کی گورننس اور کارکردگی پر بڑے سوالیہ نشانات چھوڑے گی کیونکہ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے حکمرانوں کوکہ ان کیلئے آج سب سے بڑا چیلنج گورننس ہے جس کی جانب بارہا توجہ مرکوز کرائی جارہی ہے کہ حکومت کی بیڈگورننس کی وجہ سے سیاسی ماحول میں زیادہ شدت دکھائی دے رہی ہے جسے حکومت اپنی کارکردگی کے ذریعے ہی بدل سکتی ہے۔ امید ہے کہ اس معاملہ کوسرد خانے کی نذر کرنے کی بجائے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا ۔