|

وقتِ اشاعت :   December 17 – 2020

سانحہ آرمی پبلک اسکول کو 6 برس بیت گئے ۔ 6 سال قبل علم دشمنوں نے معصوم بچوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا تھا ۔ 16 دسمبر 2014 کو مہاجرین کے روپ میں پاکستان میںداخل ہونے والے سفاک دہشتگردوں نے مقامی افراد کی مدد سے آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا تھا اور حصول علم میں مگن بچوں پر فائرنگ کردی تھی ۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی سکیورٹی فورسز نے اسکول کا گھیراؤ کیا اور خود کار اسلحے سے لیس کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 خود کش حملہ آوروں کو طویل آپریشن کے بعد ہلاک کیا تھا۔6 گھنٹے سے زیادہ کے آپریشن کے بعد اسکول کو کلئیر کیا گیا۔

سانحہ اے پی ایس میں بچوں سمیت 130 سے زائدافراد شہید ہوئے تھے۔اس دلخراش واقعہ کے بعد اس وقت کی حکومت،سیاسی جماعتوں سمیت سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کے خاتمے کے عزم کے ساتھ نیشنل ایکشن پلان جیسا بڑا گرینڈآپریشن کو ناگزیر سمجھا اور اس طرح دہشت گردوں کیخلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا گیااور اس میںخاطر خواہ کامیابی ملی جس کے بعد دہشت گردی کے واقعات میںکمی آئی ۔اسی طرح آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشتگردوں کی کمرمکمل طور پرتوڑکے رکھ دی گئی۔

اس سانحہ نے جہاں پر سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لاکر کھڑا کردیا وہیں عوام کی بھرپور حمایت ویکجہتی بھی دیکھنے کوملی اور یہی عمل کسی بھی ملک کی امن، ترقی وخوشحالی کا سبب بنتی ہے بہرحال دہشت گردی جیسے خطرناک حالات سے ملک اب نکل چکا ہے مگر اس کے منفی اثرات نے ہمارے یہاں گہرے زخم چھوڑے ہیں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہمارے پڑھے لکھے طبقہ کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا خود کش حملوں کے ذریعے وکلاء اور ڈاکٹرز بھی محفوظ نہیں رہے ۔

جس کی واضح مثال بلوچستان کے سول اسپتال کا سانحہ ہے مگر پھر بھی تمام طبقات نے ہمت نہ ہارتے ہوئے دہشت گردوں کیخلاف بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کیا اور بڑی قربانیوں کے بعد شدت پسندی میںخاطر خواہ کمی آئی ہے۔بہرحال ملک میں یکجہتی کیلئے کسی سانحہ کا ہونا ضروری نہیں ہے آج جس طرح دیکھاجارہا ہے کہ ملک میں سیاسی حوالے سے عدم استحکام پایا جاتا ہے حکومت اوراپوزیشن مدِ مقابل ہیں ایسا ماحول بن چکا ہے کہ مذاکرات کے راستے نہیں کھل رہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ اپوزیشن این آراو مانگنے کیلئے یہ سب کچھ کررہی ہے۔

جبکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ موجودہ حکومت دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے ۔البتہ ہر دور میں ملک میں ہونے والے انتخابات پر شکوک وشہبات کااظہار کیا گیا ہے آج جو حکومت میں ہیں وہ سابقہ انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے تھے اور آج کی اپوزیشن جو گزشتہ ادوار میں حکومت میں تھی ان کی حکومتوں کو بھی ووٹ چوری کے الزام کا سامنا کرناپڑا ہے یہ سلسلہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے ۔ ملک میں سیاسی جماعتوں کی بیک ڈور مقتدرحلقوں سے تعلقات پر کھل کر بات کی جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ سبھی نے اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کیلئے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

اگر آج ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہورہا ہے اس کی سب سے بڑی ذمہ دار خود یہی سیاسی جماعتیں ہیں لہٰذا ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں خود اس کا عہد کریں کہ وہ اداروں کو اپنے سیاسی مفادات اور مقاصدکیلئے استعمال کرنے سے گریز کرینگے اور آج جس طرح سے اپوزیشن ایک پیج پر ہے آنے والے دنوںمیں کوئی ایک اپوزیشن کی جماعت اقتدار میں آئے گی تو دھاندلی جیسے الزامات کی بوچھاڑ اور کوئی دوسری تحریک شروع نہیں ہوگی کیونکہ ماضی آئینہ ہے جسے خود دیکھاجائے ۔ بہرحال حکومت اوراپوزیشن کو حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کسی نہ کسی طرح مذاکرات کی میز پر آنا چاہئے تاکہ معاملات بند گلی کی طرف نہ جائیں۔

ملک میں امن تو قائم ہوچکا ہے مگر معاشی استحکام ایک بڑا چیلنج ہے جس سے نکلنے کیلئے مشترکہ طورپر کوششوں کی ضرورت ہے ۔اپوزیشن اس حوالے سے اپنی آراء کااظہار اسمبلی فلور پر کرے اور حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلے ،اگر سیاسی کھینچاتانی اور کشیدگی اسی طرح چلتی رہی تو یقینا اس کا نقصان ملک کو ہوگا ۔ ملک میں سیاسی یکجہتی کیلئے کسی سانحہ کا انتظارنہ کیاجائے بلکہ آنے والے سانحات کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر سب کو کھڑے ہوکر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ معصوم شہداء کے لہو کی قربانیوں کا صحیح معنوںمیں حق اداکیاجاسکے جس کیلئے ان کی جانیں قربان ہوئی ہیں۔