کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے حکومت کو پارٹی رہنما میر جان محمد گرگناڑی کو بازیاب کرانے کیلئے دو دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی رہنماء کو دو دن کے اندر بازیاب نہ کیا گیا تو بلوچستان بھر میں شاہراہیں بند کردیں گے ،یہاں کوئی جنوبی اور شمالی بلوچستان نہیں بلوچستان بانٹنے کی کوشش کرنے والے خود ختم ہوجائیں گے ۔
گوادر میں باڑ لگاکر وہاں کے عوام کو پنجرے میں بند کیا جارہا ہے ۔ پارٹی قائد نے پی ڈی ایم کے جلسوں میں بلوچستان کے جملہ مسائل کو اجاگر کیا کوئی غیر آئینی بات نہیں کی،بلوچستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں صوبائی حکومت مکمل خاموش ہے جیسے اسے کسی چیز کا علم ہی نہیں بلوچستان کے لوگ منفی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں ہوں گے اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج رہیں گے۔
جمہوری لوگ ہیں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیںجب ہمارے استعفیٰ اسپیکر کے پاس جائیں گے تو پھر ہمارا اراکین ان اسمبلیوں کا رخ نہیں کریں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ ، خواتین سیکرٹری و رکن صوبائی اسمبلی زینت شاہوانی ، ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ارکان ساجد ترین ایڈووکیٹ ۔
رکن اسمبلی صوبائی اختر حسین لانگو ، رکن اسمبلی ثناء بلوچ ،غلام نبی مری ، چیئرمین واحد بلوچ ، شمائیلہ اسماعیل ، ٹکری شفقت لانگو ، ضلع کوئٹہ کے قائم مقام صدر ملک محی الدین لہڑی و دیگر بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی تھی دو سال تک اتحادی رہنے کے باجود جن چھ نکات پر ہمارے درمیان اتحاد ہوا تھا۔
ان میں سے کسی ایک پر عملدرآمد نہ ہونے پر پارٹی کو اپنی راہیں الگ کرنی پڑیں حکومت کو بلوچستان کے حوالے سے مطالبات پیش کئے تھے جن پر وہ عملدرآمد نہیں کرسکی ، تحریک انصاف سے رائیں الگ کرنے کے بعد پارٹی پی ڈی ایم میں شامل ہوئی اور جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے پارٹی قائد نے پی ڈی ایم کے جلسوں میں بلوچستان کے جملہ مسائل کو اجاگر کیا۔
یہ ہمارا آج کا گلہ نہیں بلکہ گزشتہ 70 سال سے محکومی اور محرومی ہمیں ملی ہے اس کا ببانگ دہل ہم اعلان کرتے رہے ہیں جس پر ہمیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی واضح مثال وڈھ سے محمد جان گرگناڑی کا اغوا ہے جب بھی بی این پی نے صوبے کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے ، صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینٹ میں احتجاج ریکارڈ کرایا تو پارٹی کیخلاف انتقامی کاروائیوں کی ابتداء کی گئی۔
انہوں نے حاجی جان محمد گرگناڑی کے اغواء کی مذمت کرتے ہوئے کہا یہ حربہ کافی عرصہ پہلے سے آزمائے گئے ہیں حاجی جان محمد گرگناڑی کو اغواء کرنے والے افراد کی گاڑی برآمد جبکہ جائے وقوعہ پر سے تصاویر سے ان کے چہرے واضح ہیں یہ لوگ طاقت ور نہیں مگر ان پر کسی کی دست شفقت ہے جس کا مقصد پرامن جھالاون کے حالات کو خراب کرکے وہاں افراتفری پھیلانا اور اقوام کو آپس میں لڑایا جانا ہے ۔
مگر یہ کبھی نہیں ہوگا بلوچستان نیشنل پارٹی کے سو سے زائد کارکن اور پارٹی رہنماء اس جدوجہد میں اب تک شہید ہوئے ہیں، ہم اپنے مطالبات ملک کے عوام کے سامنے رکھیں تو یہ صاحب اقتدار سیخ پا ہوجاتے ہیں گزشتہ روز ضلعی انتظامیہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک گھنٹے کے اندر جان محمد گرگناڑی کو بازیاب کرایا جائے گا پارٹی کے وڈھ خضدار ، قلات ، مستونگ اور کوئٹہ کے دوستوں نے نامساعد حالات میں بھی بائیس گھنٹے تک اپنا احتجاج جاری رکھا۔
مگر ہمیں دھوکہ دیا گیا اور اب کہا جارہا ہے کہ چار دن میں بازیاب کرائیں گے جو ہمیں قابل قبول نہیں انہوں نے کہا کہ اگر دو دن میں حاجی جان محمد گرگناڑی بازیاب نہیں ہوتے تو صوبے بھر میں سخت احتجاج کیا جائے گا جس کی ابتداء روڈ بلاک سے ہوگی ،ہم لڑائی جھگڑے کے حامی ہیں نہ کسی کے مخالف ہیں نہ کسی سے نفرت کرکے اس قسم کی تحریک چلارہے ہیں مگر جب بلوچستان نیشنل پارٹی کے دوست اغواء کئے جائیں گے۔
یا زیر عتاب ہوں گے اور انہیں راستہ سے ہٹانے کی کوشش ہوگی تو اس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوگی انہوں نے ٹرانسپورٹرز سے درخواست کی کہ وہ دو دن بعد اپنی ٹرانسپورٹ نہ چلائیں اور عوام بھی سفر کرنے سے گریز کریں۔
انہوں نے سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس احتجاج میں بلوچستان نیشنل پارٹی کا سات دیں ۔ انہوں نے گوادر میں باڑ لگانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے عوام کو ایک پنجرے میں بند کیا جارہا ہے حیرانگی کی بات ہے کہ گوادر میں مسجد باڑ کے اندر اور پیش امام کا گھر باڑ کے باہر ہوگا ، ریوڑوں کو چراگاہوئوں میں چرانے کیلئے بھی وہاں کے لوگوں کو خصوصی پرمٹ لینا ہوگا ماہی گیروں کی حالت یہ ہے کہ دس گیارہ کلومیٹر پیدل جاکر صاحب اختیار لوگوں کے پاس حاضر ہوتے ہیں اگر صاحب اختیار کی مرضی ہوئی تو ان کو مچھلیاں پکڑنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
اور اب سمارٹ سیف سٹی کے نام پر گوادر میں باڑ لگاکر اسے صوبے کے دیگر اضلاع سے بھی الگ کیا جارہا ہے ، یہ سمارٹ اور سیف سٹی تو اسلام آباد ، فیصل آباد ، لاہور ، کراچی میں بھی ہیں کیا وہاں کے حساس مقامات پر باڑ لگائے گئے ہیں۔ نہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے لوگوں کو صرف بلوچستان کے وسائل اور ساحلی دولت سے سروکار ہے انہیں صوبے کے حالات کا پتہ تک نہیں۔
قلات ، ڈیرہ بگٹی اور مری کے علاقوں میں نئے معدنی ذخائر دریافت ہوئے ہیں خدشہ ہے کہ ایک مربتہ پھر پائپ لائنوں کا رخ مشرق کی طرف ہوگا اور بلوچستان کے لوگ ان سے محروم ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 25 سو میگاواٹ بجلی صوبے میں پیدا ہورہی ہے اور ہمیں 3 سے 4 سو میگاواٹ بجلی مل رہی ہے جس کا ہم ہمیشہ رونا رو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں پی ڈی ایم کا مشکور ہوں کہ انہوں نے لاہور کے جلسہ میں صوبے کے جزائز پر قبضہ اور گوادر میں باڑ لگانے کے خلاف قرارداد منظور کی۔انہوں نے کہا کہ ہم تو گوادر کا رونا رو رہے تھے کہ گوادر کی ایک الگ حیثیت بنائی جائے جہاں غیر مقامی افراد کو شناختی کارڈ بنوانے اور ووٹر لسٹوں میں ناموں کے اندراج نہ ہو ہم نے تو صوبے کے اپنے اضلاع لسبیلہ اور کیچ کے لوگوں کو بھی یہ حق نہیں دیا کہ وہ وہاں جاکر مقامی کہلائیں۔
پارٹی کے صدر نے لاہور میں ہونے والے جلسہ میں بھی اس بات پر زور دیا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ گوادر میں باہر سے کسی کا عمل دخل نہ ہو مگر وفاق کی کوشش رہی ہے کہ گوادر کو فیڈریشن کے کنٹرول میں لیا جائے اور یہی باتیں پارٹی قائد مختلف جلسوں میں اجاگر کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے جنوبی اور شمالی بلوچستان کا شوشہ چھوڑا ، بلوچستان میں کوئی جنوبی اور شمالی بلوچستان نہیں ہے۔
یہ ایک بلوچستان ہے اسے جو بانٹنے کی کوشش کریگا وہ خود ختم ہوجائے گا۔ صوبہ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں صوبائی حکومت مکمل خاموش ہے جیسے اسے کسی چیز کا علم ہی نہیں بلوچستان کے لوگ منفی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں ہوں گے اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج رہیں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے استعفیٰ پارٹی صدر کے پاس جمع کرائے ہیں۔
جب تک ہمارے استعفیٰ اسپیکر تک نہیں جائیں گے ہمارا حق ہے اپنے مسائل اسمبلی میں پیش کریں جمہوری لوگ ہیں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔جب ہمارے استعفیٰ اسپیکر کے پاس جائیں گے تو پھر ہمارا اراکین ان اسمبلیوں کا رخ نہیں کریں گے۔