ملک میں سیاسی ماحول کی کشیدگی اپنی جگہ مگر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان روزبروز مسئلہ نہ صرف شدت اختیار کرتا جارہا ہے بلکہ پیچیدگیاں بھی پیدا ہورہی ہیں۔ ایک طرف چند وزراء اپوزیشن کے ساتھ ڈائیلاگ کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسرے وزراء اپوزیشن کے حوالے سے سخت گیر مؤقف اختیار کرتے ہوئے ڈائیلاگ کو این آر او اور ریلیف سے جوڑدیتے ہیں ۔پھر اپوزیشن بھی جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت پر شدید تنقید کرتی ہے۔ بہرحال کسی بھی مسئلہ کا حل سیاسی ڈائیلاگ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
چاہے کتنی طاقت حکومت لگائے یا پھر اپوزیشن اپنی پوری زور پر آجائے، نتائج منفی ہی نکلیں گے جس کی جانب بارہا اشارہ کیاجارہا ہے کہ ملک کو اندرونی طور پر مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور سب سے اہم سیاسی استحکام ہے اس کے بعد ملک کے دیگر مسائل کو حل کیاجاسکتا ہے۔ آج دنیا کے وہ ممالک جو پاکستان کی نسبت معاشی حوالے سے انتہائی پیچھے تھے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہاں کی معیشت بلندی کی طرف جارہی ہے اور عالمی سطح پر اس قدر لابنگ کی جارہی ہے کہ معاشی ودفاعی حوالے سے ہر ملک عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لابنگ میں لگی ہوئی ہے۔
اور اس کیلئے خاص طور پر انٹرنیشنل سطح پر ڈپلومیسی کی جارہی ہے مگر ہمارے یہاں دہائیوں سے سیاسی کھینچاتانی کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث نہ صرف ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہورہا ہے بلکہ معاشی حوالے سے بھی بہت بڑے نقصانات کا سامنا کرناپڑرہا ہے ۔اندرون ملک سرمایہ کاری کی حالت بھی بری ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے ماحول ہی پیدا نہیں ہورہا ، جب تک اندرون ملک ماحول ساز گار نہیں ہوگا ملک کو سیاسی ومعاشی حوالے سے بحرانات کا سامنارہے گا۔ اس لئے ضروری ہے کہ نیشنل ڈائیلاگ کی طرف حکومت اوراپوزیشن آئیں۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاکہ اپوزیشن کو چیلنج کرتا ہوں کہ ایک ہفتہ دھرنا دے ،استعفے پر غور شروع کر دوں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ لانگ مارچ کر کے دیکھ لیں استعفیٰ کسے دینا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف نے 126 دن گزارے، یہ ایک ہفتہ نہیں گزار سکتے۔وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کے استعفوں کا انتظار کر رہے ہیں، ان کے اپنے لوگ مستعفی نہیں ہوں گے۔ یہ اداروں سے جمہوری حکومت کو ہٹانے کی اپیلیں کر رہے ہیں، کیا یہ جمہوری تحریک ہے۔
ایک ماہ پہلے ایوان بالا کے انتخابات کرائے جا سکتے ہیں، الیکشن کمیشن سے جلد انتخابات کے لیے درخواست کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ اوپن بیلٹ پر ووٹنگ کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں، اس لیے سپریم کورٹ سے رہنمائی لیں گے۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف کا بیرون ملک جانا دکھ بھری کہانی ہے۔ انہیں برطانیہ سے ڈی پورٹ کرانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کو واپس لانے کیلئے کوشش کریں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنی دیر لگے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ بات چیت کیلئے تیار ہیں، لیکن اپوزیشن کو اس میں دلچسپی نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے جوباتیں کی جارہی ہیں اس سے یہ عیاںنہیں ہوتا کہ وہ ڈائیلاگ کیلئے مکمل طور پر راضی ہیں کیونکہ اگر بات چیت کرنی ہے تو اپوزیشن کے ساتھ رویہ بہتر کرنا ہوگا ایک طرف مذاکرات کی پیشکش کی جارہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کو احتجاج کا چیلنج کرتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ اپوزیشن کے مستعفی ہونے کے حوالے سے بھی ان کا بیان واضح ہے اور سینیٹ انتخابات پر بھی کوئی نرمی دکھائی نہیں دی جارہی تو کس طرح سے اپوزیشن کو بات چیت کیلئے مصروف رکھا جاسکتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رویوں نے پہلے سے ہی ملک کو دیوالیہ کرکے رکھ دیا ہے گزشتہ کئی ادوار سے ذاتی وگروہی مفادات کو ملکی وعوامی مفادات پر فوقیت دی گئی ہے جس کی وجہ سے ملک سے بحرانات ختم ہونے کانام نہیں لے رہیں مگر یہ فیصلہ سیاسی قوتوں کو کرنا ہوگا کہ انہیں ملکی حالات کو بھانپتے ہوئے ملک کے وسیع ترمفاد میں فیصلہ کرنا ہوگا اور سیاسی رویوں میں دونوں جانب سے نرمی لانی ہوگی تب شاید کوئی راستہ نکل سکے اور ملک میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکیں۔