|

وقتِ اشاعت :   December 22 – 2020

افغان طالبان کا امریکہ اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدے اور مذاکرات کے باوجود بھی افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات میںکوئی خاص کمی نہیں آرہی بلکہ آئے روز خود کش حملے ، بم دھماکے اور فائرنگ کے واقعات رونما ہورہے ہیں جس میں اہم حکومتی شخصیات اور عام شہریوں کونشانہ بنایاجارہا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے میں واضح طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ تشدد کی روک تھام کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائینگی جبکہ ملابرادران امن عمل کو آگے بڑھانے کیلئے افغانستان میں موجود تمام گروپس سے بات چیت کرینگے۔

تاکہ پُرتشدد واقعات کو روکنے کے ساتھ ساتھ انہیں امن عمل کا حصہ بنایاجاسکے مگر باوجود اس کہ اب تک صورتحال میںکوئی خاص بہتری نہیں آئی جس پر گزشتہ روز امریکی نمائندے خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے پُرتشددواقعات کی مذمت کرتے ہوئے افغان حکومت اور طالبان سے تشدد میں کمی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ۔زلمے خلیل زاد نے ایک بیان میں افغانستان میں حالیہ تشددکی بڑی لہر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد حملے کرنے والے خوشحال افغانستان کے خلاف ہیں،دہشت گرد تشدد میں اضافے کو امن اور تشددکے خاتمے کے عزم کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زوردیا کہ افغان فریقین مل کر بین الاقوامی حمایت کے ساتھ اسلحہ اور بارودی سرنگوں کی لعنت سے نمٹیں۔ افغان حکومت اور طالبان ،عوام کے امن وخوشحالی کے مطالبے کا احترام کریں اور جلد از جلد سیاسی معاہدے پرپہنچیں، امریکا افغان عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔واضح رہے کہ رواں ماہ کے دوران 18دسمبر کوافغانستان کے علاقے غزنی میں ختم قرآن کی محفل میں بم دھماکے کے نتیجے میں 15افراد جاں بحق جبکہ 20زخمی ہوگئے تھے۔رپورٹس کے مطابق گھر کے باہر کھڑی موٹر سائیکل میں نصب بم پھٹنے کی وجہ سے واقعہ پیش آیاتھا۔

رواں ماہ میں ہی دوسرا واقعہ 15دسمبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پیش آیا تھا جس میں ایک دھماکے کے دوران ڈپٹی گورنر محبوب اللہ محبی جاں بحق ہوئے تھے جبکہ ان کا سیکرٹری بھی دھماکے میںجان کی بازی ہارگئے تھے جبکہ ڈپٹی گورنر کے دو محافظ زخمی ہوگئے تھے۔ ڈپٹی گورنر کابل کی گاڑی میں ڈیوائس نصب کی گئی تھی جس سے ان کی گاڑی تباہ ہوگئی تھی۔بہرحال ان حملوں کی ذمہ داری کسی بھی گروپ نے قبول نہیں کی۔البتہ یہ صرف چند واقعات جو رواں ماہ کے دوران پیش آئے تھے مگر یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہیں جس کی بنیادی وجہ واضح نظرآرہی ہے کہ چند ایک ممالک افغان امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں ۔

تاکہ ان کا اثرونفوذ افغانستان میں قائم رہے اس لئے وہ پس پردہ بیٹھ کر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی کامیاب تکمیل کے حوالے سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے جس پر وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ پُرامن طریقے سے افغانستان کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے پاکستان مکمل ساتھ دے گا اور یہ تعاون کا سلسلہ امن کی تکمیل تک جاری رہے گا۔اس سے قبل بھی پاکستان نے افغانستان میں کسی بھی طرح کے طاقت کے استعمال کو امن عمل کیلئے خطرہ قرار دیا تھا اور اسی شرط پر تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی کہ افغانستان میں کوئی طاقت کا استعمال نہ کرے۔

بلکہ امریکہ سمیت عالمی طاقتیں افغانستان میں بات چیت کے ذریعے افغانستان کا مسئلہ حل کریں ۔ بہرحال امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ طالبان اور خاص کر ملابرادران کے ساتھ مل کر سازشی عناصر کو روکنے کیلئے مشترکہ روڈ میپ بنائیں تاکہ افغانستان میں بدامنی کی لہر کو ختم کیاجاسکے۔