حکومت اوراپوزیشن کے درمیان موجود تناؤ کے دوران حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ بات سامنے آتی رہی ہے کہ شہباز شریف مذاکرات کے حوالے سے تیار ہیں جبکہ اس سے قبل بھی شہبازشریف کا نام اس حوالے سے شیخ رشید لیتے رہے ہیں کہ شہبازشریف ٹکراؤ نہیںچاہتے بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملات کو افہام وتفہیم سے حل کرنے کے ہامی ہیں اور شہباز شریف سے رابطوں کے متعلق بھی متعددبار باتیں سامنے آچکی ہیں مگر اس حوالے سے مسلم لیگ ن نے ہمیشہ بات چیت یا بیک ڈور ملاقاتوںکی تردید کی ہے۔
اسی طرح جب عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقات کی بات جب شیخ رشید نے میڈیا کے سامنے لائی تب اپوزیشن جماعتوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی تصدیق کی اور اس کے بعد یہ فیصلہ کیاگیا کہ جو بھی ملاقات، بات چیت یا مذاکرات ہونگے اس حوالے سے پارٹی کو مکمل اعتماد میں لیاجائے گا۔بہرحال شہبازشریف اور مسلم لیگ فنکشنل کے رہنماء محمدعلی درانی کے درمیان ہونے والی گزشتہ روز کی ملاقات کی نہ صرف تصدیق کی گئی ۔
بلکہ ملاقات کے احوال بھی سامنے آئے ہیں۔ اس ہونے والی ملاقات پر سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جیل میں ملاقات حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتی۔ محمد علی درانی کی شہباز شریف سے ملاقات کس کی ایماء اور مرضی سے ہوئی یہ بات کچھ شبہات پیدا کرتی ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس ملاقات سے مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، شہباز شریف تمام فیصلے اپنی جماعت کی مشاورت سے کرتے ہیں اور فیصلے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس ہی میں ہوتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ فنکشنل کے رہنماء محمد علی درانی سے جیل میں ہونے والی ملاقات میں شہباز شریف کو پیر پگارا کا دو نکاتی پیغام پہنچایا گیا جس میں لانگ مارچ اور استعفوں کا آپشن روکنے کا پیغام تھا۔اطلاعات کے مطابق شہباز شریف نے پیرپگارا اور محمد علی درانی کی مفاہمتی کوششوں کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی پیغامات ملے مگر تبدیلی کے مثبت اثرات نظرنہیں آئے، جیل میں ہوں ، کچھ وقت دیں تاکہ آپ کا پیغام دوسری اپوزیشن پارٹیوں تک پہنچا سکوں، حتمی فیصلہ پی ڈی ایم کی قیادت کرے گی۔
شہبازشریف کا کہناتھاکہ عوام حکومت سے نہیں اپوزیشن سے امیدیں لگائی ہوئی ہے کہ اس نااہل حکومت سے ان کی جان چھڑائی جائے، سیاسی معاملات افہام و تفہیم سے حل ہونے چاہئیں تاکہ عوام جمہوریت سے فائدہ اٹھاسکیں ۔ محمد علی درانی نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں پیرپگارا کا پیغام لے کر گیا تھا، پیرپگارا سے درخواست کروں گا کہ وزیراعظم کو کہیں کہ مذاکرات نوشتہ دیوار ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت دونوں راضی نہیں تو اس وقت مذاکرات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، ہم بات نہیں کریں گے، ٹکراؤ کی طرف جائیں گے۔
تو اس کے بعد بھی مذاکرات تو کرنے پڑیں گے۔اس ملاقات کے بعد ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان چند حلقے سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں جو کہ بامعنی ہوں اور نتائج دے سکیں تاکہ مزید ٹکراؤسے بچا جاسکے۔ اس ملاقات کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ پنجاب اور خاص کر مسلم لیگ ن کے اہم رہنماء کے درمیان یہ ملاقات ہوئی ہے۔
اور اس میںکوئی شک نہیںکہ اس میں حکومت کی مرضی ومنشاء شامل ہے تاکہ مذاکرات کے حوالے سے کسی نہ کسی طرح سے کوئی راستہ نکل آئے تاکہ سیاسی ماحول میں تناؤ کم ہوسکے ۔بہرحال یہ ایک بہترین فیصلہ ہے امید ہے کہ مذاکرات کے اس عمل کو جاری رکھاجائے گا تاکہ کسی بہترین نتیجے پر پہنچاجاسکے۔