خضدار: بلوچ یکجہتی کمیٹی خضدار کی جانب سے کریمہ بلوچ کی کینیڈا میں پر اسرار ہلاکت کے خلاف ڈاکخانہ چوک سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی ریلی کے شرکا شہر کے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے مرکزی آزادی چوک پہنچے ریلی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اراکین خواتین بچوں سمیت مختلف سیاسی سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی ریلی سے وحید انجم فائزہ فوزیہ ایڈوکیٹ بلوچستان نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر شفیق الرحمان ساسولی۔
تبسم نادر حفیظ بلوچ اور شیر احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ بلوچستان کی بیٹی تھی اسے اپنی سرزمین سے بے حد محبت تھی یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے اپنا دیس چھوڑ کر دیار غیر میں پنا ہ لی لیکن وہاں پر بھی موت کا فرشتہ پہنچ کروہ آواز جو ہمیشہ حق کے لئے بلند ہوتی تھی کو ابدی نیند سلادیا انہوں نے کہاکہ المیہ یہ ہے کہ بلوچ اپنے دیس اور پردیس میں بھی محفوظ نہیں رہے۔
اسی طرح عارف بارکزئی، ساجد حسین بلوچ، اور بانک کریمہ بلوچ کو انتہائی باریک بینی کے ساتھ بیرونی ملک مبینہ طور پر شہید کرکے اسے حادثاتی موت ظاہرکیا گیا ہے۔ بانک کریمہ بلوچ کا قتل ہمارے لئے کسی بھی سانحہ سے کم نہیں ہے کہ ہمارے چیدہ چیدہ لوگوں کو ہم سے چھینا جارہاہے جیسے کہ آپ کے علم میں ہے کہ یہاں بلوچ گزشتہ دو عشروں سے مظالم سہہ رہے ہیں۔
مظلوم و محکوم عوام کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہو، اگر یہ سلسلہ جاری رہا توآئندہ ہم بھی محفوظ نہیں رہیں گے اور اپنے آنے والے کل کے لئے آواز اٹھائیں انہوں نے کہا کہ اب اس سلسلے کو بند ہونا ہوگا مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے اداروں اور خاص کرکینیڈین حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کریمہ بلوچ کے حوالے سے صاف و شفاف تحقیقات کرکے اصل محرکات کو سامنے لائے۔
اور بانک کریمہ بلوچ کے قتل کی تحقیقات کے علاوہ ان کے جسد خاکی کو باعزت و باحفاظت طریقے سے واپس لایاجائے اور دنیا بھر میں بلوچوں کے حفاظت کے لئے وہاں کے ممالک حفاظتی اقدامات کریں انہوں نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت سے ایک مرتبہ پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ کریمہ بلوچ کے قتل کی صاف و شفاف طریقے سے تحقیقات کرائیں اور کینڈین حکومت سے کہیں کہ وہ کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کو پاکستان بھجوائے ۔
دریں اثناء پنجگور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے معروف سیاسی شخصیت اور بی ایس او کے سابق چیئر پرسن بانک کریمہ کی شہادت کے خلاف ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین بچے اور جوان شریک رہے ریلی جاوید چوک سے شروع ہوکر پریس کلب تک پہنچ کر ایک جلسہ کی شکل اختیار کرگیا۔مظاہرین نے اپنے ہاتھوں پلے کارڈز اور بینرزاْٹھا رکھے تھے جن پر کریمہ بلوچ کی شہادت کے خلاف اور اْن کو انصاف دلانے کے حوالے سے نعرے درج تھے۔
مظاہرین نے بانک کریمہ بلوچ کی بہمانہ قتل کے خلاف اور اْن کو انصاف دلانے کے حوالے سے شدید دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ اْن کی بہمانہ قتل کی شفاف طریقے سے تحقیقات کرکے اْن کو انصاف دلائی جائے.احتجاجی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فہد آصف بلوچ، صْغرا ظہور ،موسی بلوچ ،امیر بلوچ بانک بینظیر بلوچ ،میار عابد ،شاہنواز بلوچ بی این پی مینگل کے مرکزی جوائنٹ سکریٹری میر نذیر احمد نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر حاجی صالح بلوچ ۔
اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کریمہ بلوچ نہ صرف بلوچ قوم کی ایک نڈر اور بہادر بیٹی لیڈر تھی بلکہ وہ دْنیا کے مختلف ممالک.کے مظلوم عوام کی ایک موثر آواز تھی اور اْنہوں نے دنیا کے تمام مظلوموں پر ہونے والی مظالم کے خلاف آواز بلند کرکے انسانی حقوق کی پائمالی کے خلاف ہمیشہ بولتے رہے.انہوں عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ کریمہ بلوچ کی بہمانہ قتل کے خلاف شفاف تحقیقات کرکے بلوچ قوم اور کریمہ کے لواحقین کو انصاف دلائی جائے۔انہوں نے کہا کہ بلوچ اپنی سرزمین پر کئی دہائیوں سے ظلم.اور نا انصافیوں کا شکار رہا ہے۔
لیکن بلوچ قوم کی دشمنوں نے اس سرزمین پر بلوچ سیاسی کارکنوں پر اپنی ظلم کی تسلسل کر برقرار رکھتے ہوئے اس کو مزید وسعت دے کر دْنیا کے پرامن ترین ممالک میں بلوچ سیاسی کارکنان جو ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اْن کو وہاں بھی ایک ایک کرکے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بانک کریمہ ساجد حسین بلوچ سمیت دیگر کارکنان کی پر امن ممالک میں قتل ایک سوالیہ نشان ہے۔
بن اقوام اور ممالک پر جو انسانی حقوق اور امن کا ڈرامہ رچارہے ہیں.اگر دشمن ایک پر امن سیاسی کارکن کو برداشت نہیں کر سکتا تو یہ طاقتیں ہمیں کس طرح ہمارے بنیادی حقوق دلائیں گے.انہوں نے کہا کہ انتہائی دکھ ہوا ہے کہ کینیڈا جیسے ایک پرامن ملک میں ایک بلوچ خاتون کی بہمانہ قتل ہوتا ہے اور کئی دن گزرنے کے باوجود اْن کی بہمانہ قتل کی تحقیات انجام تک نہیں پہنچا ہے۔
کریمہ بلوچ کی شہادت پر بلوچ قوم فخر کرتی ہے کہ اْنہوں نے ظلم کے خلاف اور مظلوموں کیلئے ایک موثر آوازتھی اگر بلوچ قوم نے اب بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کیا تو اْن کو ہمیشہ کیلئے اْن کی سرزمین سے بے دخل کیا جائے گا۔اْنہوں نے مزید کہا کہ بانک کریمہ بلوچ ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے ہیں لیکن اْن کا فکر اور فلسفہ آج ہر گھر میں اور ہر فرد میں منتقل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
بلوچ قوم پر جبر اور ظلم کی داستانیں نئی نہیں ہیں بلکہ 1947سے لیکر اب تک ایک تسلسل سے جاری ہیں اور اس میں روز بروز شدت لائی جا رہی ہے ہر آنے والا دن بلوچ کو مارنے کے لیے مختلف حربے استعمال کئے ہوتے ہیں جب تک کریمہ بلوچ کی طرح نڈر اور بہادر خواتین بلوچ قوم میں پیدا ہوتے رہیں گے ۔اس وقت تک بلوچ کی ظلم کے خلاف ہونے والی جدوجہد کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ کی جہد مسلسل نے بلوچ خواتین کے حوصلے بلند کئے ہیں اور وہ اپنی حقوق کی جنگ کو ہر محاذپر لڑنے کی طاقت رکھتے ہیں اور آج ہر گھر میں کریمہ بلوچ سمیت دیگر شہدا کی فکر اور فلسفہ کی آبیاری ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا ایک کریمہ بلوچ کو ہم سے جسمانی طور پرجدا کرنے سے فکر کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔دریں اثناء بلوچ ویمن الائنس کی جانب سے بانک کریمہ بلوچ کی بے رحمانہ قتل کے خلاف شہید اکبر خان بگٹی اسٹیڈیم سے لے کر پریس کلب تک ایک پر امن ریلی نکالی گئی۔
جس میں مختلف سیاسی جماعتوں ، وکلا برادری، سول سوسائٹی، طلبا تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی مظاہرین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی ایس او کے سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کا بہیمانہ قتل بلوچستان کے منظم آواز کو دبانے کی سازش ہے ایسے بزدلانہ حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کینیڈا جیسے مہذب اور انسانیت کے علمبردار ملک میں بلوچ فرزند محفوظ نہیں تو دوسرے ممالک سے ہم کیا۔
امید رکھے سیاسی کارکنان، صحافی اور انسانی حقوق کے لیے جہدوجد کرنے والوں کے قتل کو شرعی، قانونی اور روایتی لحاظ سے ظلم عظیم اور انسانیت کے روح کو مجروح کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں انہوں نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ کی دلسوز واقع نے زندہ انسانوں کے احساسات اور ضمیرکو غمزدہ کردیا کسی بھی مہذب معاشرے میں عورت کاقتل جو کسی بھی گروہ سے تعلق رکھتے ہوں ۔
عالمی قوانین اور اسلامی شریعت کے برخلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسے انسانیت سوز واقعات عالم اقوام کے لیے لحمہ فکریہ ہے اپنے مفلوالحال عوام سرزمین اور ان پر ڈھائے گئے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہے تو ہم سب مجرم ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ بانک کریمہ بلوچ کی بہیمانہ قتل کی شفاف طریقے سے انکوائری کرکے ملوث افراد کو منظر عام پر لیا جائے اور ان کی میت کو بلوچستان لاکر ان کے خاندان کو انصاف دیا جائے ۔