|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2020

کراچی: سیاسی مختلف دینی جماعتوں قوم پرست پارٹیوں کے مرکزی رہنماؤں،ماہرین قانون اورسول سوسائٹی کے نمائندوں نے صدارتی آرڈیننس کے تحت پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کومسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ دنیا کی تاریخ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کسی علاقے کے جغرافیہ میں تبدیلی کی کوئی مثال نہیں ملتی،آرڈیننس سے نہ صرف سندھ بلوچستان کے سمندر بلکہ ہمارے دریا پر بھی قبضہ کی راہ ہموارکی گئی ہے۔

موجودہ وفاقی حکومت نے آئین کوپامال کرتے ہوئے 31 اگست کو جوصدارتی آرڈیننس جاری کیاہے یہ سندھ کو تقسیم کرنے کی سازش ہے،اتھارٹی کے دائرہ کارمیں آنے والیوالے علاقے کو آئین اور قانون سے ماوراء قراردیا گیا ہے،سیاسی قیادت کا کہنا تھا کہ قومی وجود کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرنے والوں کو غدارٹہراکرراستے سے ہٹانے کی روایت آج بھی برقرار ہے۔

اگرپی ڈی ایم سمندری جزائرپرجبری قبضے کواپنی تحریک کا حصہ بناتی ہے تو ہم ساتھ دینے کوتیارہیں۔ ان خیالات کا اظہارسندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ، نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی،سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹرقادرمگسی،بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرجہانزیب بلوچ،معروف قانون دان شہاب اوستو،سندھ ہائی کورٹ۔

بارایسوسی ایشن کے صدرصلاح الدین،عوامی ورکرز پارٹی کے یوسف مستی خان دیگرنے کراچی کے مقامی ہوٹل میں پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020، وفاقی حکومت کا سندھ بلوچستان ساحلی پٹی اور جزائر پر قبضہ اور ملکیت کے حقوق کے سوال پرمنعقدہ ایک روزہ نیشنل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سندھ یونائیٹیڈ پارٹی کے تحت منعقدہ کانفرنس میں جماعت اسلامی کے مولانا اسداللہ بھٹو،عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری یونس بونیری۔

جے یوآئی کے مولانا تاج محمد ناہیوں،مسلم لیگ ن کے نہال ہاشمی،جئے سندھ قومی پارٹی کے واز زئنور،پورہیت مزاحمتی تحریک کے مسرورشاہ،پاکستان سرائیکی پارٹی کے صوبائی صدرشفقت بخاری ایڈوکیٹ،عوامی جمہوری پارٹی کے نور نبی راہوجو،عوامی تحریک کے سجاد چانڈیو دیگرنے شرکت کی اورخطاب کیا۔اس موقع پرمنظورکردہ مختلف قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا۔

کہ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس2020 آئینِ پاکستا ن کی نفی کرتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا سبب بنا ہے،کانفرنس میں شامل تمام جماعتوں نے مشترکہ طور پر صدارتی آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس2020 فوری طور پر واپس لیکر آئین میں کئیے ہوئے معاہدے کے تحت قومی اکائیوں سندھ اور بلوچستان کے جغرافیائی حدودد کو محفوظ بنایا جائے۔

ایک اورقرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ اور بلوچستان کی موجودہ حکومتیں پیڈا آرڈیننس 2020 کو واپس کروانے کے لئیے مشترکہ مفادات کونسل کا خصوصی اجلاس بلا کر وفاق پر یہ غیر آئینی آرڈیننس واپس لینے کے لیے اپنا دباؤ بڑھائیں ورنہ صوبائی حکومتوں کی خاموشی کوغیرآئینی اقدام میں شریک تصورکرتے ہوئے تحریک چلائی جائے گی۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سندھ کے مسائل بلوچستان کے مسائل سے الگ نہیں ہیں۔

جب یہ آرڈیننس آیا اسی دن ہم نے اس کو سینٹ میں مسترد کیا،پونم زندہ ہے،لوگوں کو ماننا پڑے گا کہ 18 ترمیم پونم کی جدوجہد کا حصہ ہے،ہم اس ملک میں رہنا چاہتے ہیں لیکن سر اٹھا کرجئیں گے،اگر ہم نے واقعی عوامی انقلاب کی بات کرنی ہے توداخلی بدمعاش کا ہاتھ توڑنا ہو گا۔سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبد المالک بلوچ نے کہاکہ پرویزمشرف نے گوراد کو وفاقی حیثیت دینے کی کوشش کی تھی۔

یہی ذہنی کیفیت سندھ بلوچستان کے سمندری جزائر کو کسی نہ کسی طرح ہم سے کاٹ دینا چاہتی ہیاٹھارویں ترمیم کے تحت 12 ناٹیکل میل تک سمندی حدود صوبے کا حصہ ہیں،اس کے علاوہ کوئی بھی پیمانہ ہم نہیں مانیں گے۔وفاقی حکومت واضح کرے کہ کس قانون کے تحت کوسٹل ڈویلیپمنٹ اتھارٹی بنائی گئی،ہمیں سنجیدگی کی ضرورت ہے،عوام کو منظم کرکے ایسے اقدامات کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

سید جلال محمود شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سندھ کی سرحدوں کے اندر ڈنگی اور بھنڈار سمندری جزائر پر وفاقی حکومت کا ترقی کے نام پر صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کوئی بھی اقدام نہ صرف پاکستان کے آئین کی پامالی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وفاق کو کمزور کرنے کا خطرناک عمل بھی ہے،ماضی میں وفاق کی طرف سے اس طرح کے غلط فیصلوں پر سندھ کی عوام کو سخت رنجش رہی ہے۔

ترقی کے نام پر یا تو ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا ہماری سرزمین پر قبضہ کرناچاہتے ہیں،سائیں جی ایم سید نے اسی مقصد کی خاطرجب اپنے قومی وجود کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے حق کی بات کی تو ان کو غدار کا لقب دے کرقید وبند میں رکھا گیا اور آج بھی یہ صورتحال برقرار ہے۔انہوں نے کہاکہ اگراپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سنجیدگی سے سمندری جزائرکا معاملہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرتی ہے۔

تو ہم پی ڈی ایم کا ساتھ نبھانے کے لیے تیارہیں۔سندھ ترقی پسند پارٹی کے ڈاکٹرقادرمگسی نے کہاکہ جارحیت اور جبر سے ملک نہیں چلے گا،وزیراعظم سمندری جزائرکوتحویل میں لینے کا قانونی اوراخلاقی جوازدیں،قانونی دلائل پر بات کریں،ہم پاکستان توڑنے کی بات تو نہیں کرتے،ہم تو پاکستان کی کامیابی کا مشورہ دیتے ہیں۔

معروف قانون دان شہاب اوستونے کہاکہ قانون دان بیرسٹر شہاب اوستو نے کہاکہ آرڈیننس کے ذریعہ ساحلی علاقے کوایک ایساعلاقہ بنادیا گیا ہے کہ وہاں آئین اور قانون کا کوئی اطلاق ہی نہیں ہوگا،یہ کوسٹل بیلٹ پر صرف قبضہ کرنا چاہتے ہیں، کوئی آرڈیننس جاری کرنے سے پہلے اس کے لیے قانون بنانا بھی ضروری ہے،موجودہ حکمران جس طرح ملک چلانا چاہتے ہیں وہ پہلے آئین کوختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی مرضی اورمنشا کے مطابق ملک چلائیں۔