|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2020

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی حوالے سے کشیدگی بڑھتی جارہی ہے ۔پہلے وزراء کی جانب سے بیانات سامنے آرہے تھے کہ مذاکرات ضروری ہیں اور اس پر سوچنا چاہئے تاکہ مثبت راستہ نکل آئے مگر برف پگھلنے ہی میں نہیں آ رہی ۔چند روز قبل شہباز شریف کی مسلم لیگ فنکشنل کے رہنماء سے ملاقات کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ شاید کوئی راستہ نکل آئے مگرفی الحال معاملات جوں کے توں ہیں۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ بات ہر وقت سامنے آتی رہی ہے کہ شہبازشریف بات چیت کیلئے تیار ہیں اور وہ نوازشریف سے الگ بیانیہ رکھتے ہیں ۔

دونوں کی سوچ میں واضح فرق ہے لیکن شہبازشریف ابھی بھی جیل میں ہیں دیگر لیگی رہنماؤں کی گرفتاری سے اب لگ رہا ہے کہ شاید مذاکرات کے حوالے سے حکومت اوراپوزیشن کے درمیان کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے اور بیک ڈور بات چیت بھی نہیں کی جارہی جس سے کہاجائے کہ شاید آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے گا۔ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ ان کی گرفتاری کے پیچھے 100 فیصد عمران خان کے مقاصد ہیں۔احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ مجھے چارج شیٹ دی گئی کہ میرے اثاثے بڑھ گئے ہیں۔

لیکن ابھی تک نیب نے کوئی تفتیش نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ دو ڈھائی سال سے پارٹی توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے اور نوازشریف کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک سوال کے جوا ب پرخواجہ آصف کاکہناتھاکہ جب سے نواز شریف نااہل ہوئے ہیں ہم سب کویہی کہاجارہاہے کہ پارٹی چھوڑدیں ۔ اب بہت کیس چلیں گے ، نیب کا قانون اب ایسا ہی رہے گا، میری گرفتاری کے پیچھے جس کا ہاتھ ہے بتا دیا۔واضح رہے کہ نیب نے گزشتہ دنوں خواجہ آصف کو اسلام آباد میں احسن اقبال کے گھر سے گرفتار کیاتھا ان پر آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام ہے۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہاہے کہ سیالکوٹی ٹھگ کی کارکردگی بے نقاب ہو گئی۔ راجکماری سیٹ بیلٹ باندھ لیں، ان کا ٹائی ٹینک ڈوبنے والا ہے، آصف زرداری اوربلاول بھٹو نے ان کابراحال کردیا،ان کی منتیں بھی کچھ کام نہ آئیں۔فردوس عاشق نے کہا کہ 11 جماعتوں کا بیانیہ بھی نو دو گیارہ ہو گیا ،کرپشن میں ملوث لوگ ایک ایک کرکے قانون کے شکنجے میں آرہے ہیں،مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان اکیلے کھڑے ہیں۔مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کہتی ہیں کہ عوام کے ووٹ کے بغیر پاکستان میں وزیراعظم لایا گیا۔

وزیراعظم سلیکٹڈ تو ہے ہی اب ریجیکٹڈ بھی ہو گا۔مریم نوازکاکہنا ہے کہ نالائق وزیراعظم کشمیر کا مقدمہ ہار آیا تھا، راجہ فاروق حیدر نے بھی سلیکٹڈ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔ خواجہ آصف کی گرفتاری سے ن لیگی ڈرنے والے نہیں، ڈٹ کر حکومت کا مقابلہ کریں گے۔ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ان بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ معاملہ ابھی تک اپنی جگہ اسی طرح برقرار ہے جو پہلے تھا۔ بہرحال سیاسی مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے اس کے بغیر یہ کہنا کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگا اور حکومت کی مشکلات میںکمی آئے گی تویہ غلط ہے ۔

حکومت کی ذمہ داری پہلے بنتی ہے کہ بات چیت کیلئے ساز گار ماحول پیدا کرے تاکہ اندرون خانہ جو چیلنجز معاشی حوالے سے حکومت کو درپیش ہیں وہ حل ہوسکیں کیونکہ عوامی مسائل بڑھتے جارہے ہیں ،نئے سال میں عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور اس میں مرکزی کردار سیاسی جماعتوں کا ہے مگر یہ تمام مسائل تب حل ہونگے جب دونوں فریقین اسمبلی فورم پر پالیسی کے ذریعے مسائل کے حل کیلئے مشترکہ طور پر کام کرینگے۔