|

وقتِ اشاعت :   January 5 – 2021

گوادر: نیشنل پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ممبر اور آل گوادر شپنگ اینڈ کلیرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری انجنیئر حمید بلوچ نے منسٹری آف کامرس سمینار جو گوادر بزنس سنٹر میں منعقد ہوئی تھی ایسوسی ایشن کی نمائندگی کی۔

انھوں نیاپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی مرتبہ منسٹری آف کامرس نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ جو گندم، کھاد اور دیگر اشیا ملک میں درآمد ہوگا اس میں پچاس فیصد گوادر پورٹ سے اور پچاس فیصد کراچی پورٹ سے درآمد ہوگا۔ مگروہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہے۔ گوادر میںمقامی شپنگ اور کلیرنگ ایجنٹس کو بہت بڑا مسئلہ درپیش ہے نہ ان کو شپنگ اور نہ ہی کلیرنگ کا کام دیا جا رہا ہے۔

بلکہ چائنیز پاکستان میں موجود اپنے متعلقہ کمپنیوں کے ساتھ پاکستان کی بجائے چین میں محادہ کرکے انھیں کام دے رہے ہیں۔ CPEC سے مقامی آبادی و بلوچستان کے عوام کو ہی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ شہد سے میٹھی، سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی دوستی ڈرامہ کے سوا کچھ نہیں ہے، ریاستوں کے درمیان رشتے اپنے اپنے مفادات کے تحت ہوتے ہیں ہر ملک اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی بناتے ہیں۔

گوادر میں ترقی کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن عملا’’ ایسا کو ہی کام نہیں ہورہا جس سے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچے اس سے پہلے سنگاپور کے ساتھ چالیس سالہ معاہدہ مشرف رجیم نے بلوچستان کے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ان پر مسلط کیا اور پھر چائنہ نیاسی عوام دشمن معاہدہ کے تحت لاکھوں ڈالرز کے عوض سنگاپور سے وہ شیئر خرید لئے۔

اس سے پہلے اور نہ ہی اس مرتبہ بلوچستان کے عوام کو اعتماد میں لیا گیا اس معاہدہ میں 91 فیصد حصہ چین, 9 فیصد وفاق اور بلوچستان کیلیے کوئی حصہ نہیں رکھا گیا ہے۔

انجنیئر حمید بلوچ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوے کہا کہ گوادر کے منصوبوں کی حکمت عملی نہ بلوچستان میں اور نہ ہی پاکستان میں تیار کی جاتی ہیں بلکہ چائنیز چین میں بیٹھ کر گوادر کیلیے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ اتاکہ یہاں کے لوکل شہریوں کو نظرانداز کرکے لیبر اور ٹھیکے غیر مقامی لوگوں کو دیے جاتے ہیں۔