سانحہ مچھ کے شہداء کے لواحقین کی جانب سے میت کے ساتھ دھرنا جاری ہے ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان ان سے ملاقات کرنے کوئٹہ آئیں، ان کے سامنے اپنی تمام باتیں رکھیں گے جس کے بعد میتوں کی تدفین عمل میں لائی جائے گی وگرنہ ہمارا یہ احتجاج جاری رہے گا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہزارہ کمیونٹی کی جانب سے اپنے شہداء کی میتیں لیکر دھرنا دیاجارہا ہے ماضی میں بھی طویل دھرنے دیئے گئے اور اسی طرح وفاقی نمائندگان کوئٹہ تشریف لائے اور یقین دہانی کرائی کہ ہزارہ کمیونٹی کے قتل میںملوث دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچاکر سخت سزادی جائے گی ۔
جبکہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ بھی اس سے پہلے ہزارہ کمیونٹی کے شہداء کے ساتھ ملاقات کیلئے کوئٹہ آئے تھے اور ان کے ساتھ مذاکرات اور یقین دہانی کے بعد ہزارہ کمیونٹی نے اپنااحتجاج ختم کیا تھا۔ ہزارہ کمیونٹی کی جانب سے موجودہ احتجاجی دھرنے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں بہت جلد کوئٹہ کا دورہ کروں گا۔ لواحقین سے درخواست ہے شہدا کی تدفین کردیں۔انہوں نے کہا دکھ کی اس گھڑی میں ہزارہ برادری کے ساتھ ہیں۔ شہدا کے لواحقین کے دکھ کا احساس ہے۔ سانحہ مچھ میں شہدا کے لواحقین سے ملنے جائوں گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا ہمسایہ فرقہ وارانہ دہشتگردی کو ہواد ے رہا ہے۔ میں کبھی بھی اپنے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائوں گا۔دوسری جانب وزریراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی ہزارہ برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ جاں بحق افراد کی تدفین کریںاورکہاکہ ہزارہ برادری سے معاملات بیٹھ کر حل کر ینگے۔ ہزارہ برادری دینی فرض کو وزیراعظم کے آنے سے مشروط نہ کرے۔ بلوچستان، پاکستان اور ہزارہ کمیونٹی کے دشمن چاہتے ہیں ایسی چیزیں ہوں۔
ماضی کی نسبت بلوچستان میں امن برقرار رہا۔کوئٹہ کے لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ حالات بہتر ہوئے، دھرنامظاہرین سے بات کریں گے وہ ہمارے بھائی ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پہلے دن سے کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا ہم سب پاکستانی ہیں، یہاں پر کسی کو دوسرے سے الگ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہماری کوشش ہے کہ معاملات کوآگے کی طرف لے کر جائیں۔جام کمال نے کہا کہ بلوچستان نے 10سال بہت مشکل وقت میں گزارے۔ بلوچستان سے دشمنی رکھنے والے چاہتے ہیں کہ یہاں خرابی پیدا ہو۔
ہزارہ کمیونٹی کوساتھ لیکرچلنا چاہتے ہیں لیکن دشمنوں کو یہ پسند نہیں۔وفاقی وزیر برائے بحری امورعلی زیدی نے کہا کہ پاکستان کے خارجی دشمن اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ ہم جب حکومت میں نہیں تھے تو سنتے تھے بیرونی ہاتھ ہیں۔ کلبھوشن جیسے لوگ یہیں سے پکڑے گئے تھے۔بہرحال بلوچستان میں فرقہ واریت جیسے ناسور کی گنجائش کبھی بھی تاریخ کے باب میں دیکھنے کو نہیں ملی یہ سلسلہ افغان وار اور نائن الیون کے بعد طول پکڑتاگیا ،بیرونی جنگ نے بلوچستان کو فرقہ واریت کی لپیٹ میں لیا جس پر بلوچستان کی تمام سیاسی قوتیں اول روز سے یہ مطالبہ کرتی آرہی ہیں کہ بیرونی جنگ کا حصہ ہمیں نہیں ہونا چاہئے۔
جس کی وجہ سے براہ راست زیادہ نقصان بلوچستان کو اٹھانا پڑرہا ہے ۔ایک تو مہاجرین کی بڑی تعدادمیںآمد تو دوسری جانب انہی مہاجرین میں سے بعض عناصر دہشت گردوں کے سہولت کار بن کر بلوچستان میں بدامنی کی وجہ بن رہے ہیں اس لئے ان کی باعزت وطن واپسی کا مطالبہ یہاں کی سیاسی جماعتیں کرتی آرہی ہیں ۔چونکہ جب آپ کی سرزمین پربڑی تعداد میں بیرونی افراد کی یلغار ہوگی تو اس کا کلچر اور معاشرے پر اثرضرور پڑے گا لہٰذا اس پہلو کو نظرانداز نہیںکرنا چاہئے ۔جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی کوئٹہ آمد کا معاملہ ہے ۔
تو وہ کسی بھی وقت آئینگے مگر مطالبات ہزارہ کمیونٹی کے وہی ہونگے جو وہ اول روز سے کرتے آرہے ہیں مگر وزیراعظم عمران خان اپنے پرانے بیان پر بھی غور کریں جس میں انہوں نے مہاجرین کو شہریت دینے کے حوالے سے بات کی تھی کیونکہ ہمارے یہاں مہاجرین کا مکمل ڈیٹا کمپیوٹرائزڈحوالے سے موجود نہیں ہے اور کتنے مہاجرین غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔
ان کے متعلق بھی کوئی اعداد وشمار نہیں کہ ان کی اصل تعداد کتنی ہے لہٰذا اس حساسیت کو بھی سمجھتے ہوئے مہاجرین کی رجسٹریشن کرائی جائے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مددگار ثابت ہوگی اور اس کے ساتھ ہی فرقہ واریت کے خاتمے سمیت بلوچستان میں شدت پسندی کو روکنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر وفاقی حکومت ایک بڑی بیٹھک لگائے تاکہ تجاویز کے ساتھ بہتر حکمت عملی کے ساتھ شدت پسندی کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں مدد مل سکے۔