|

وقتِ اشاعت :   January 11 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ وزیراعظم ، صوبائی حکومت،وفاقی وزیر داخلہ اور مولانا طاہر اشرفی سانحہ مچ میں انڈیا کے ملوث ہونے کی بات کرتے ہیں۔

اور ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی جاتی ہے ، یہ تضاد ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے کسی جعلی پولیس انکاونٹر میں کسی نام نہاد ماسٹر مائنڈکا مارا جانا قبول نہیں بلکہ ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو کو گرفتار کرکے ان کا اوپن ٹرائل کیا جائے تاکہ دنیاکو معلوم ہو کہ ایسے واقعات میں کس کا ہاتھ ہے۔یہ بات انہوں نے اتوار کو سراوان ہائوس کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ،حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان میں عارضی اور مصنوعی امن ڈیل کے نتیجے میں قائم ہے۔

جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے جزیروں ، گوادر ، ساحل وسائل اور بنیادی قومی حقوق کا سودا کیا گیا ہے سانحہ مچ اور اس جیسے واقعات جو بلوچستان میں پیش آئے پر اپنی، اپنے خاندان اور اپنی پارٹی کی جانب سے اظہار افسوس اور لواحقین کیساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا کہ ان قوتوں کی مذمت کرتے ہیں جنہوں نے بلوچستان کو مقتل بنایا اور یہاں بارہا ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔

جن کی بنیاد پر بلوچستان ملکی و بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی اور قتل وغارت کے واقعات کی وجہ سے فوکس ہوجاتا ہے اور جہاں ایسے واقعات پیش آتے ہیں یہ محسوس کرایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں صرف دہشت گرد بستے اور یہاں پر قتل غارت گری ہورہی ہے افسوس یہ ہے کہ ہمارے صوبے میں پچھلے کئی دہائیوں سے امن وامان اور سیکورٹی پر کئی بلین روپے خرچ کیے جاتے ہیں ۔

مگر آج تک کوئی ایسا دہشت گرد یا قاتل پکڑا نہیں گیا جس کا باقاعدہ ٹرائل کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں ، سانحہ مچ اور اس سے پہلے یہاں اور بھی واقعات پیش آئے ہیں جن کو فرقہ واریت اور مصنوعی دہشت گردی کی شکل دی جاتی ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا بلوچ علاقوں میں کیوں ہوتا ہے دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام بڑے واقعات کے بعد کوئی ایک دہشت گرد یا قاتل پکڑا گیا۔

یہاں یہ سوال بھی ہے کہ بلوچستان میں بگڑتے حالات یہاں کے حقیقی اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے انجینئرڈ واقعات پیش آرہے ہیں ،ہم ان قوتوں کی بھی مذمت کرتے ہیں جو بار بار یہ سمجھتے اور یہاں کے لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں بلکہ فرقہ واریت ہے جب تک ان تمام واقعات کے ماسٹر مائنڈ پکڑے نہیں جاتے ہم اس کو دہشت گردی سمجھتے ہیں ، یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایسے واقعات عموماً سردیوں میں ہی کیوں پیش آتے ہیں پوری دنیا میں یہ بتایا جارہا ہے کہ داعش کو ختم کردیا گیا ہے جبکہ بڑے دہشت گرد اسلام آباد ، ایبٹ آباد۔

لاہور اور کراچی میں پکڑے جاتے ہیں مگر بڑے واقعات بلوچستان میں کیوں پیش آتے ہیں۔ اخبارات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات سے قبل ہی دہشت گرد پکڑے گئے مگر بلوچستان کے لوگ پوچھتے ہیں کہ یہاں دہشت گردی کے بعد بھی دہشت گرد نہیں پکڑے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سابق ہو یا موجودہ صوبائی حکومت ہو میڈیا کے ذریعے دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے صوبے میں امن و امان قائم کیا ہے۔

ہم ایسے دعووں کو رد کرتے ہیں یہ عارضی اور مصنوعی امن ڈیل کے نتیجے میں قائم کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے جزیروں ، گوادر ، صوبے کے وسائل اور بنیادی قومی حقوق کا سودا کیا گیا ہے ، آج جب بلوچستان ایک مرتبہ پھر اٹھا ہے اور اپنے حقوق کی بات کرتا ہے اس لئے یہاں ایسے واقعات پیش آرہے ہیں ، کینیڈا میں کریمہ بلوچ اور تربت میں حیات بلوچ کے قتل پر لوگ اٹھے اور آواز اٹھائی۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ ان تمام واقعات میں بھارت کا ہاتھ ہے وہ سلیکٹڈ سہی مگر پاکستان کے وزیراعظم بنائے گئے ہیں۔

وزیر خارجہ نے بھی یہی بات کہی ، یہی بات مولانا طاہر اشرفی نے بھی یہ بات کی ، واقعہ مچ میں پیش آیا اور انہیں فوری طور پر اسلام آباد میں پتہ چل گیا کہ اس میں ہندوستان ملوث ہے صوبائی حکومت نے بھی یہی بات کی اورساتھ ہی سوشل میڈیا میں ایک بین الاقوامی نام نہادشدت پسندتنظیم پر الزام لگایا گیاکہ اس نے یہ کیا مگر مچ واقعے میں نامعلوم افراد کیخلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

جبکہ وزیراعظم ، وزیر داخلہ اور مولانا طاہر اشرفی انڈیا پر الزام لگاتے ہیں یہ تضاد ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جب وزیراعظم یہ کہتا ہے کہ ہندوستان کا سانحے میں ہاتھ ہے تو انڈیا سے طاقت سے نمٹا جائے اور اس حوالے سے ثبوت ہیں تو اقوام متحدہ میں لے جائے جائیں جس میں شاید پنجاب کے لوگ بھی حکمرانوں کی حمایت کریں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پیش آنے والے واقعات کو الیکڑنک میڈیا کوریج نہیں دیتی ۔

مگر مچ کے واقعے کو تماام الیکٹرانک میڈیا نے فوکس کیا دیکھنا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہیں اس کی سرپرستی ہوئی ہیتاکہ بلوچستان کو شورش زدہ دکھایا جائے۔انہوں نے کہا کہ جدید نو آبادیاتی نظام میں انسانوں کی نہیں بلکہ وسائل کی اہمیت ہوتی ہے اور ان تمام واقعات کے پس منظر میں بھی وسائل کی اہمیت ہے انسانوں کی نہیں چاہے وہ کسی بھی قوم نسل و مذہب سے تعلق رکھتے ہوں ۔

انہوں نے کہا کہ اس اثناء میں بعض حلقوں کی جانب سے بلوچستان میں ا?پریشن کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ بلوچستان کئی دہائیوں سے مسلسل آپریشن کی زد میں رہا ہے جہاں کئی لوگ لاپتہ ہوئے ہزاروں مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں ، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان وزیراعظم ہیں وہ جو بھی بات کرینگے ان کے پاس اس کے ثبوت ہونے چاہیں اور اس ثبوت کی بنیاد پر ایف آئی آردرج ہونی چاہئے۔