پنجگور: پنجگور کے کاروباری شخصیات زبیراحمد حاجی لشکری لیاقت علی حاجی صال جان محمد اکرم نے سینکڑوں افراد کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے اور لوگوں کی معاشی زرائع کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے اور صوبہ بلوچستان خصوصا مکران بھی اس حوالے سے زراعت اور بارڈر ٹریڈ پر انحصار کرتی ہے۔
جہاں لوگ بارڈر سے ڈیزل لاکر اپنے ٹیوب ویلز کو چلاکر دو وقت کی روٹی کا حصول ممکن بناتے ہیں اور ہمارا پورا زرعی شعبہ ایرانی ڈیزل کا محتاج ہے جوکہ بند ہوگا تو اس کے منفی اثرات دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ زراعت پر بھی پڑیں گے انہوں نے کہا کہ پاک ایران بارڈر سے صرف پنجگور کے لوگوں کا چولہا نہیں جلتا ہے بلکہ پورا بلوچستان بارڈر سے کھا رہا بچوں کی تعلیم سے لیکر کھانے پینے کی اشیاء تک سب بارڈر کے کاروبار کا مرہوں منت ہیں۔
ہمارے ہاں چونکہ کاریزی نظام زراعت ختم ہوچکا ہے اب اس کی جگہ ڈیزل انجنوں نے لی ہے جب ڈیزل میسر آئے گا تب زرعی پہیہ چل پڑتا ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے کاروبار سے ملکی ریونیو میں بھی اضافہ ہورہا ہے 900 کے قریب آئل ٹینکرزسے سالانہ سرکار کو چالیس کروڑ سے زائد کا ایکسائز ٹیکس ملتا اور ان نو سو آئل ٹینکرز سے پنجگور کے 90 ہزار خاندان برسرروزگار ہیں۔
ان کے علاوہ ہزاروں گیراج اور اسپیئر پارٹس کی دکانین سروس اسٹیشن بارڈر کے کاروبار کا محتاج ہیں اگر یہ سلسلہ رک گیا تو صرف پنجگور میں تین لاکھ گھرانے بے روزگار ہوکر نان نفقہ کے محتاج بن جائیں گے انہوں نے کہا کہ ان حالات میں جہاں لوگ بڑے پیمانے پر بے روزگار ہونگے تو ظاہر ہے معاشرتی مسائل پیدا ہونگے اور خصوصا امن وامان کا مسئلہ ایک بار پھر سراٹھائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مخصوص حالات اس طرح کے کاموں کے متقاضی نہیں ہوتے حکومت ایک طرف بلوچستان کے لوگوں کو روزگار نہیں دیتی ہے تو دوسری طرف ان کے مزدوری پر قدغن لگارہی ہے جو ایک بڑی ناانصافی اور ظلم ہے انہوں نے کہا کہ ہم بارڈر پر کاروبار نہیں کریں گے تو کمائیں کہاں سے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ روکنے پر اس بات پر مجبور ہونگے کہ اب اپنے بچوں کو اسکولوں سے نکال کر گیراج میں مزدوری پر لگائیں۔
انہوںبنے کہا کہ بلوچستان کے کسی علاقے میں کارخانہ وصنعت نہیں ہے روزگار اور زراعت کے زرائع بارڈر کے محتاج ہیں انہوں نے کہا کہ لوگوں کو جینے کا حق دیا جائے زورگار جب چھین جائے گا تو امن وامان کے مسائل پیدا ہونگے انہوں نے کہا کہ بارڈر کے محنت کشوں کی وجہ سے مکران اور بلوچستان میں پورا سٹم چل رہا حکومت یا تو ہمیں روزگار دے یا بارڈر پر پابندیاں ہٹاکر ہمیں کاروبار کی اجازت دیں۔
تاکہ ہم اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے کھانے پینے کی ضروریات ڈیزل اور بارڈر پورا کرتے ہیں حکومت کے اس فیصلے سے انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے فیصلہ واپس نہیں لیا تو ہم احتجاج پر مجبور ہونگے اور سی پیک روڑ پر دھرنا دے کر شاہراہ بند کریں گے انہوں نے علاقائی نمائندوں پر بھی زور دیا کہ عوام کے معاشی قتل عام کے خلاف آواز آٹھائیں۔