امریکہ کا شمار دنیا کے سپر پاور ممالک میں نمبر ون پر ہوتا ہے جس کی معیشت اور طاقت سب سے زیادہ ہے جس کی واضح مثال امریکہ کی جانب سے لڑنے والی جنگیں ہیں دنیا میں ہونے والی بڑی جنگوںمیں امریکہ کا مرکزی کردار رہ چکا ہے گوکہ برٹش طاقت کا محور رہا ہے اور اب بھی ہے مگر طاقت کا توازن اور فیصلہ سازی میں سرفہرست اب امریکہ ہی ہے اور برطانیہ اتحادی کے طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔ حالیہ جنگیں اس کی واضح مثال ہیں افغانستان، شام، عراق سمیت جس ملک پر امریکہ نے حملے کافیصلہ کیا ۔
تو اس کی تائید برطانوی حکومت کرتی آئی ہے اور دونوں کے معاشی ،دفاعی،سیاسی مفادات دنیا پر اپنااثر ونفوذ استعمال کرنے کیلئے ایک ہیں۔ امریکہ متعدد جنگ لڑنے کے باوجود اتنا دیوالیہ نہیں ہوا جس طرح ہونا چاہئے تھا۔ بہرحال ان دنوں امریکہ میں قانونی بحران پیدا ہوچکا ہے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ٹرمپ نے نتائج تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کیا تھا بلکہ حالیہ تشدد پر لوگوں کو اُکسایا تھا جس کے بعد خود ٹرمپ کے ہی کابینہ ارکان اور اہم عہدوں پر فائز سرکاری عہدیداروں نے اس عمل کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ مستعفی ہونے کافیصلہ کیا ۔
امریکی ایوان نمائندگان نے ٹرمپ کیخلاف باقاعدہ آئین میںترمیم کااشارہ دیا اور اب باقاعدہ اس پر عمل ہونے جارہا ہے۔ گزشتہ روز امریکی ایوان نمائندگان نے ٹرمپ کوعہدے سے ہٹانے کی حمایت کردی اور نائب صدر کے انکار کے باوجود صدر کے مواخذے کا بل منظور ہوگیا۔امریکی صدر کو25ویں ترمیم کے تحت ہٹانے کی حمایت میں 223 اور مخالفت میں 205ووٹ آئے ہیں۔ 25ویں ترمیم کے تحت نائب صدر کو ٹرمپ کے خلاف کارروائی کے لیے کہا جائے گا۔
ووٹنگ سے قبل ٹرمپ کی پارٹی ری پبلکن کے متعدد رہنماؤں نے واضح الفاظ میں کہا تھا وہ مواخذے کی حمایت کریں گے۔سابق نائب صدر ڈیک چینی کی بیٹی اور ریپبلکن رہنما لینسی چینی نے بھی 25 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کا عندیہ دیا تھا۔قبل ازیں امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو25 ویں آئینی ترمیم کے تحت عہدے سے ہٹانے سے انکار کر دیا تھا۔مائیک پنس نے کہا کہ امریکی صدر کو ہٹانے سے غلط روایات جنم لیں گی۔ 25ویں آئینی ترمیم کا استعمال ملک وقوم کے مفاد میں نہیں۔
امریکہ کے نائب صدر نے کہا میں نہیں سمجھتا کہ25ویں آئینی ترمیم امریکی آئین سے مطابقت رکھتی ہے۔دوسری جانب صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ 25ویں آئینی ترمیم سے مجھے بالکل خطرہ نہیں یہ بائیڈن کیخلاف استعمال ہوگی۔واضح رہے کہ امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا تھا کہ اگر نائب صدر مائیک پینس ترمیم کی اطلاق کی درخواست پر راضی نہیں ہوتے تو ہم ایوان میں مواخذے سے متعلق قانون سازی کے لیے آگے بڑھیں گے۔امریکہ میں صدرکو 25ویں آئینی ترمیم سے جسمانی اور دماغی بیماری کے بعد عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔
اس کیلئے کابینہ کی اکثریت کے علاوہ نائب صدر مائیک پینس کی حمایت درکار ہوگی۔البتہ اس تمام تر عمل کے بعد اب دنیا میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ آنے والے وقت میں امریکہ کو اس ترمیم سے نقصان بھی ہوسکتا ہے مگر بعض عالمی مبصرین اس حوالے سے مختلف رائے رکھتے ہیں کہ ڈونلڈٹرمپ کو ہٹانے کے بعد کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی امریکہ میں اس ترمیم کو آنے والے صدور پر کسی معمولی مسئلے پر استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکہ اپنی معیشت، طاقت اور دنیا پر اجارہ داری کو قائم رکھنے کیلئے کمزور فیصلے نہیں کرسکتا اس لئے یہ کہنا کہ آئندہ امریکہ میں کسی سیاسی بحران کا سامنا کرے گا تو یہ محض سطحی بات ہوگی۔