ملک میں مہنگائی نے غریب عوام کے مسائل بڑھادیئے ہیں ،کوئی ایسی شے نہیں جو عوام کی دسترس میں ہو ،لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں، اشیاء خوردنی سمیت دیگر چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں ،مارکیٹوں میں سبزی، گوشت، گھی، دال، چاول ، آٹاسمیت خوردنی اشیاء سرکاری نرخناموں سے بھی زیادہ قیمتوں پر فروخت کئے جارہے ہیں ۔ المیہ یہ بھی ہے کہ مارکیٹ میں سرکاری نرخنامہ آویزاں بھی نہیں ہوتا جہاں پر سرکاری نرخنامہ آویزاں بھی ہیں تو اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا ۔
گرانفروش کسی کو خاطر میں نہیں لارہے جبکہ ضلعی انتظامیہ بھی کارروائی سے گریزاں دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے متعدد بار مہنگائی کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹیاں تشکیل دیں جس کے بعد پلان مرتب کیا گیا کہ کس طرح سے بڑھتی مہنگائی پر قابوپایاجائے، بدقسمتی سے اس حوالے سے کوئی خاص اثر نہیں پڑا بلکہ کہاجائے کہ کمیٹیاں غیر فعال ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹائیگرفورس کو بھی ذمہ داریاں سونپی گئیں تھیں مگر نتیجہ واضح طور پر سامنے ہے اور اس فیصلہ پر شدید تنقید بھی کی گئی کہ جب تمام تر سرکاری مشینری موجود ہے۔
تو پھر ٹائیگرفورس کو یہ ذمہ داری دینا کہاں کی دانشمندی ہے ۔ضلعی انتظامیہ کے آفیسران اور اہلکارکیونکر سرکاری نرخنامہ پر عملدرآمد کیلئے کارروائی نہیں کرتے جو ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ بہرحال جس طرح سے مہنگائی کی شرح میںاضافہ ہورہا ہے اس کا براہ راست اثر حکومت کی گورننس پر پڑرہا ہے عوام کی جانب سے حکومتی فیصلوں پر شدید تنقید دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب ایک بار پھر وفاقی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیاہے۔پیٹرول کی قیمت میں 3 روپے 20 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔
جبکہ ڈیزل کی قیمت میں دو روپے پچانوے پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 3 روپے فی لیٹر اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 4 روپے 42 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے عوام کو نئے سال کے پہلے ہی مہینے 2 بار مہنگائی کا تحفہ دیا گیا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی گئی۔اضافے کے بعد پیٹرول کی نئی قیمت 109روپے 20 پیسے فی لیٹر، ڈیزل کی قیمت 113روپے19پیسے، مٹی کے تیل کی قیمت 76روپے65پیسے اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 76روپے 23 پیسے فی لیٹر ہوگئی۔
نئی قیمتوں کا اطلاق 31 جنوری تک کیلئے ہوگا۔واضح رہے کہ سال نو کے موقع پر بھی حکومت نے قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا اور پیٹرول کی قیمت میں 2.31 روپے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 1.80 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا تھا۔اس طرح سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوںمیں اضافے کے بعد کس طرح سے توقع کی جاسکتی ہے کہ مہنگائی پر قابو پایاجاسکتا ہے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو ہرچیز کی قیمت خودبخود بڑھنے لگ جاتی ہے۔ تین سال کے دوران صرف یہ دعوے ہی سامنے آرہے ہیں کہ جلد عوام کو مشکلات سے نجات دلائی جائے گی۔
اور مہنگائی کا مکمل خاتمہ کیاجائے گا لیکن افسوس کہ حکومت کے وعدے محض دعوے ہی ثابت ہوئے ہیں اور عوام کا جینا محال ہوکر رہ گیا ہے۔ اول روز سے اس بات کی نشاندہی کی جارہی ہے کہ حکومت کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج گڈگورننس اور عوامی مسائل کا ہے اگر انہیں حل کیاجائے تو عوامی رائے میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے مگر تبدیلی سرکار کے فیصلے عوام اور حکومت کے درمیان بڑی خلیج بنے ہوئے ہیں۔اس لئے حکومت کو عوامی مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہئے گڈگورننس اور عوام کو ریلیف فراہم کرکے ہی حکومت سیاسی میدان میں اپنی جیت کے شادیانے بجاسکتا ہے۔