افغانستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں عالمی طاقتیں افغانستان میں دیرپا امن کیلئے سست روی کامظاہرہ نہ کریں بلکہ افغانستان میں ہونے والے اندرون خانہ سازشوں کو سمجھتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بھرپور طریقے سے اپناذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔ بدقسمتی سے افغانستان میں امن وامان کی صورتحال ایک بار پھر بگڑنے لگی ہے۔ ہفتے کے روزافغانستان کے صوبے کابل اوربغلان میں بم دھماکوں میں 3 پولیس اہلکار ہلاک اورتین زخمی ہوگئے،12 گھنٹے سے بھی کم وقت میں کابل۔
بغلان، قندھاراور ہلمند میں دھماکے کئے گئے۔کابل یونیورسٹی روڈ پر ہفتے کی صبح ہونے والے نصب شدہ بارودی مواد کے دھماکے میں پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیاجس میں دو پولیس اہلکار جاں بحق اور ایک اہلکار زخمی ہوا۔بغلان کے شہرخمری میں سڑک کنارے بم دھماکے میں بھی پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایک شخص جاں بحق جبکہ2 افراد زخمی ہوئے۔جمعہ کی شام قندھار اور ہلمند میں بھی دھماکے کئے گئے۔ 2020ء کا سال بھی افغانستان کیلئے کوئی خاص امن نہ لاسکا بلکہ متواتر حملوں میں نہ صرف عام شہری جاں بحق ہوئے۔
بلکہ اہم شخصیات بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ دوحہ امن معاہدے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ تیزی سے افغانستان کے حالات میں تبدیلی آئے گی اور ملابرادران کے ساتھ مکمل تعاون کے ذریعے افغانستان میں موجودتمام گروپس ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اہم پیشرفت دیکھنے کو ملے گی جبکہ افغان حکومت اورطالبان کے درمیان بھی امن معاہدہ ہوچکا ہے پھر کیونکر امن وامان کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے خراب ہورہی ہے اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ چندممالک افغانستان میں اپنا اثرونفوذ برقرار رکھنے کیلئے پراکسی وار کے ذریعے عدم استحکام پھیلارہے ہیں۔
تاکہ افغانستان میں امن قائم نہ ہوسکے اور اس کے پیچھے ایک دشمن ملک ہے جو پاکستان میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کی سرپرستی کرتا آرہا ہے اور افغانستان میں بھی دہشت گردگروپس کو فنڈنگ کررہا ہے۔بہرحال اس تمام صورتحال میں پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ افغانستان کے مسئلے کو جلد بات چیت کے ذریعے حل کیاجائے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر خوشگوار ماحول میں امن عمل کو آگے بڑھایاجائے۔گزشتہ روز پاک فوج کے سربراہ جنرل قمرجاوید باجوہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا کہ پاکستان بین الافغان مذاکرات کی حمایت جاری رکھے گا۔
اس سے قبل بھی حکومتی سطح پر یہ بات دنیا کے سامنے رکھی گئی ہے کہ پاکستان کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا بلکہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پل کاکردار ادا کرے گا اور جہاں ضرورت پڑے گی فریقین سے بات چیت کیلئے تیار ہے کیونکہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان نے دہشت گردی کی بڑی قیمت چکائی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے سانحات رونما ہوچکے ہیں اور اب بھی دشمن ملک پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے کیلئے افغان سرزمین کو استعمال کررہا ہے جبکہ شدت پسندگروپس کے ذریعے کارروائیاں کراتا ہے۔
جس کی ایک مثال حال ہی میں بولان کے علاقے مچھ میں ہزارہ کمیونٹی کودہشت گردی کا نشانہ بنایاگیا،ایسے ان گنت واقعات پاکستان میں رونما ہوچکے ہیں اس لئے پاکستان کی اولین ترجیح افغانستان میں شدت پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے تاکہ پاکستان میں انتشار نہ پھیلایاجاسکے مگر اس کیلئے عالمی برادری کو بھی اپنا کلیدی کردار ادا کرناچاہئے تاکہ خطے سمیت دنیا کے امن کو خطرات لاحق نہ ہوسکیں۔