ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کو کڈنی ہلز پلاٹس الاٹمنٹ کیس میں ملزم نامزد کر دیا گیا۔نیب نے سلیم مانڈوی والا کے خلاف ریفرنس تیار کر لیا جس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ پر سرکاری پلاٹس غنی مجید کو بیچنے میں اعجاز ہارون کی سہولت کاری کا الزام ہے جبکہ سلیم مانڈوی والا کے ساتھ ندیم مانڈوی والا، اعجاز ہارون، غنی مجید اور مبینہ بے نامی طارق محمود کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔نیب ریفرنس کے مطابق اعجاز ہارون کو الاٹمنٹس کے بدلے بھاری رقوم جعلی اکاؤنٹس سے ملیں اور اعجاز ہارون نے کڈنی ہلز فلک نما میں پلاٹس کی بیک ڈیٹ فائلیں تیار کیں۔
سلیم مانڈوی والا نے پلاٹس غنی مجید کو فروخت کرنے میں اعجاز ہارون کی معاونت کی اور حصے میں ملی رقم سے سلیم مانڈوی والا نے پہلے ایک بے نامی کے نام پر پلاٹ خریدا۔دوسری جانب ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کڈنی ہلز پلاٹس الاٹمنٹ کیس سے میرا کوئی تعلق نہیں جبکہ میں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔انہوں نے کہا کہ نیب کا ادارہ سیاست دانوں کا میڈیا ٹرائل کرنا بند کرے۔ نیب ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے ۔
جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور میری کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے نہ کوئی فرنٹ مین ہے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کڈنی ہلز پلاٹس کیس سیاسی کردار کشی کے لیے بنایا گیا ہے جبکہ نیب کو بے نقاب کرنے کی میری جدوجہد جاری رہے گی۔انہوں نے کہا کہ منگلا ویو ریزارٹ کیس میں میری کوئی بے نامی جائیداد نہیں ہے اور منگلا ویو ریزارٹ میں نے کوئی بے نامی شئیرز یا پلاٹس ٹرانسفر نہیں کیے۔ سلیم مانڈی والا اس وقت نیب کے خلاف ہر فورم پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور اب تک کی نیب کی کارروائیوں کو سیاسی انتقامی کارروائیاں قرار دیتے ہوئے انہیں جانبداری سے جوڑ رہے ہیں۔
بہرحال نیب کی کارروائیوں کے حوالے سے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کا مؤقف یکساں ہے کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کے طور پر حکومت کے مفادات کیلئے استعمال ہورہی ہے اور اپوزیشن کے کسی بھی متحرک سیاستدان کی زبان بند کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیاجاتا ہے یہ دعوے اپوزیشن کی جانب سے ہر روز سننے کو ملتے ہیں مگر یہ تمام ترصورتحال ملکی وقومی مفادات کے برعکس ہے کہ جس طرح سے ادارے اور سیاستدانوں کے درمیان ٹکراؤ ہے کیونکہ قومی اداروں پر جب عدم اعتماد کی بات کی جاتی ہے تو یہ عدم استحکام کا سبب بنتا ہے۔
یہ سلسلہ طول پکڑتا جارہا ہے جسے کسی نہ کسی طرح سے رکنا چاہئے تاکہ ادارے متنازعہ نہ بنیں ۔اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے یہ بات کہی تھی کہ اپوزیشن نے نیب ترامیم میں این آراو مانگنے کی کوشش کی تھی اور ہم نے انہیںتسلیم نہیں کیا اس لئے پی ڈی ایم کی صورت میں بلیک میلنگ شروع کی گئی ہے۔ ایک طرف اپوزیشن سڑکوں پر دکھائی دے رہی ہے تو دوسری جانب نیب کی صورت میں گرفتاریاں بھی ہورہی ہیں اور حکومت واپوزیشن مدِمقابل ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات بھی لگار ہے ہیں ۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوںمیں مزیدسیاسی ماحول میں کشیدگی پیدا ہوگی بلکہ نیب اور اپوزیشن بھی ٹکراؤ کی طرف جائینگے ۔پہلے یہ امید کی جارہی تھی کہ کوئی درمیانہ راستہ نکل آئے گا جس کے بعد سیاسی ماحول کو خوشگوار بناتے ہوئے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کیاجائے گا مگر اب دور تک ایسا دکھائی نہیں دے رہا اور جس طرح سے سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے موجودہ حالات میں ملکی مفادات کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگا اس لئے سیاسی جماعتوں کو ڈائیلاگ کی طرف جاناہوگا اور یہی واحد حل ہے جو ہمارے یہاں استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔