|

وقتِ اشاعت :   January 26 – 2021

کراچی: عوامی ورکرز پارٹی کریمہ بلوچ شہد کی میت پہ قبضہ اور اور لوگوں کو ان کی تدفین میں شرکت سے روکنے کی سکت ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے
عوامی ورکرز پارٹی کے صدر یوسف مستی خان ، سیکریٹری جنرل اختر حسین، ڈپٹی سیکریٹری عصمت شاہجہان، آرگنائزنگ سیکریٹری جاوید اختر، خیبر پختونخوا ہ کے صدر اخوند زادہ حیدر زمان ، سندھ کے صدر بخشل تھلہو اور جنرل سیکریٹری جاوید راجپر نے اپنے مشترکہ بیان میں کریمہ بلوچ کی میت پہ قبضہ اور بے حرمتی کی سخت ترین الفاظ مین مذمت کی اور کہا کہ جس طرح کریمہ بلوچ کی جسد خاکی کے ساتھہ حکمرانوں نے رویہ روا رکھا ھے اُسی سے قاتلوں کا بھی پتہ لگانا مشکل نہیں .
کریمہ بلوچ کی لاش کو کراچی ائرپورٹ سے اغوا کر لیا گیا، ان کے آبائ ضلع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، انٹرنیٹ اور تمام موبائ سروس معطل کر دی گئی ، کریمہ بلوچ کا استقبال کرنے اور آخری رسومات میں شرکت کرنے سے لوگوں کو روک دیا گیا ۔ کسی میڈیا ہاؤس کی ہمت نہیں ہوئ کی اس ننگی بربریت کے بارے میں ایک ٹکر بھی چلائے۔ حتی کہ کسی سیاستدان نے کوئ بیان تک نہیں دیا ۔ ان رہنمائوں نے کہا کہ اس غم اور غصہ کی گھڑی میں پارٹی کریمہ بلوچ کے ورثا کے ساتھہ یک جہتی کا اظہار کرتی ہے اور ان کو انصاف ملنے تک کھڑی رہے گی.
پارٹی رہنماوں نے کہا کہ یہ عمل انتہائی شرمناک ہے کہ پاکستانی ریاست لاشوں سے خوفزدہ ہے۔
انہوں نے یاد دہانی کروایا کہ اس سے قبل حسن ناصر ، ذوالفیقار علی بھٹو اوراکبر بگٹی کی نعشوں کو ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کیا گیا تھا۔ اب ریاست نے کریمہ بلوچ کی لاش کو زبردستی قبضے میں لیا اور ان کے آبائی شہر ٹمپ میں انٹرنیٹ کو معطل کیا اور اس کے آخری رسومات سے قبل اس علاقے کو لاک ڈاؤن میں ڈال دیا۔
ان رہنماوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے سامراجی اقاوں کے روایات کو زندہ کیا ہے۔ کیونکہ مخالفین کی لاشیں چوری اور غائب کرنے کا کام سامراجی اور نوآبادیاتی ریاستوں کی میراث ہے ۔
اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی بھی انقلابی کی موت سے ابھرنے والے مقبول جذبات کو دبائیں۔
لیکن ان کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایسے افراد کو طبعی طور پر تو فنا کیا جا سکتا ہے لیکن وہ معاشرے میں لوگوں کے دلوں مین زندہ رہتے ہیں ۔ وہ کہانیوں ، لوک داستانوں ، گانوں ، اشعار اور نچلی سطح کی مزاحمتی تحریک میں موجود رہتے ہیں۔
یوسف مستی خان نے کہا کی اگر ریاست بلوچ نوجوانوں پر اس طرح کے مصائب اور جبر کے پہاڑ توڑنے کے بعد اور ان کو اپنے لاشوں پر ماتم کرنے کی بھی اجازت نہیں دے سکتی ہے تو، ان سے وفاداری کی توقوع ب بھی نہیں کرنا چاہئے۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ جو ریاست “اسلامی” ہونے کا دعوی کرتی ہے وہ اپنے شہری کی لاش کو بنیادی احترام نہیں دے سکی۔ یہ ایک ایسی حرکت ہے جو بلوچ عوام کے زخموں کو ٹھیک کرنے کے بجائے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے۔
اس ضمن میں سندہ پارٹی نے کراچی پارٹی اور وفاقی صدر کامریڈ یوسف مستی خان کے کردار کو بھی سراہا ۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سندہ اور بلوچستان کے سیاسی کارکنوں کو جبری طور پر اغوا کیا جاتا تھا اب تو موت کے بعد میتیں بھی محفوظ نہیں.
عوامی ورکرز پارٹی اس بربریت کو ایک بزدلانہ حرکت سمجھتی ہے۔.
حیدر زمان نے کہا کہ ہم اہل اقتدار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کریمہ بلوچ کے خاندان کو انساف مہیا کرے اور بلوچستان میں ریاستی دیشت گردی بند کرائیں۔
عاصم سجاد اختر نے کہا کہ لاش تو دفنا دو گے لیکن نظریہ کیسے دفناؤ گے، اکبر بگٹی کو تو قتل کر کے دفنا دیا تھا اب کریمہ بلوچ کو قتل کرا کر اس کی لاش پر بھی قابض ہو گئے ہو لیکن اس نظریے کو کیسے قتل کرو گے جس کا پرچار کریمہ بلوچ کرتی تھی۔
.
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماوں نے خبردار کیا کہ حکمرانوں کو یہ بات ذہین نشین کرنا چاہئے کہ سات دہائیوں سے جاری بلوچ قومی تحریک، امن اور آزادی کی آوازوں کو طاقت اور دہشت گردی کے ذریعے دبا نہیں سکے ہیں۔ خواتین اور نوجوانوں کی ایک نئی نسل جدوجہد کی نئی راہوں کو پر چلنے کے لئے کریمہ کے نقش قدم پر چل چکی ہے اب کسی بھی طرح کی ریاستی جبر اور دہشت گردی اس کی میراث کو ختم نہیں کر سکتی۔
اسلئے حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینا چاہئے اور بلوچستان میں فوجی آپریشن اور خون خرابہ کو فل فور بند کرنا چاہئے اور گفت شنید کے ذریعے لوگوں کے ا حساس محرومی اور غربت و دیگر مسائل کو ختم کرنے کی کوشیش کرنا چاہئے۔
انہوں نے کنیڈا اور پاکستان کی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ کریمہ بلوچ ، ساجد حسین اور عارف بلوچ کے قتل کی غیر جانبدار تحققت کریں اور ان واقعات میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹھرے میں کھڑا کریں۔