پی ڈی ایم کی حکومت مخالف تحریک کا جب آغاز ہوا تو اس سے یہ تاثر ملاکہ اپوزیشن جماعتیں مستقل مزاجی کے ساتھ بغیر کسی ابہام کے اپنے ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھیں گی، سب سے پہلے پی ڈی ایم میں شامل تمام اپوزیشن جماعتوں نے ملک بھر میں جلسوں کا انعقاد کیا اور اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیاجائے گا اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت کو گھر نہ بھیجا جائے ۔اوراب لانگ مارچ کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک پر بھی بات ہورہی ہے ۔
مگر اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوں کا بیانیہ واضح نہیں ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی جانب سے جب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانا بہتر ہوگی جس کے بعد مسلم لیگ ن نے اس کی مخالفت کی اور یہی اب اپوزیشن جماعتوں کے درمیان زیر بحث مسئلہ بن چکی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں وہ کامیابی حاصل کرپائینگے یا پھر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کی طرح انہیں شکست کا سامنا کرناپڑے گا باوجود اس کے کہ ان کے پاس اکثریت تھی مگر اپوزیشن کے ہی اراکین سینیٹ نے اپنے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا ۔
اس لئے یہ خوف اپوزیشن جماعتوں کو اب بھی ہے شاید انہیںاپنے بعض ارکان پر اعتماد نہیں کہ وہ پھر سے عدم اعتماد کی تحریک میں ان کا ساتھ نہ دیں گے ۔بہرحال یہ اپوزیشن کی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ انہیں اپنے ہی ارکان پر اتنااعتماد بھی نہیں کہ وہ ان کے ساتھ حکومت مخالف تحریک میں بھرپور طریقے سے ساتھ دینگے کیونکہ ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان نے یہی بات دہرائی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک پر فی الحال عمل ہوتا نظرنہیں آرہا۔
گزشتہ روز مولانافضل الرحمان نے میڈیا نمائندگان کے ساتھ تمام تر صورتحال پر بات چیت کی۔ مولانا فضل الرحمان کاکہناتھاکہ پی ڈی ایم حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کسی کے ساتھ مذاکرات نہیں کررہی، اگر کوئی بات چیت کرناچاہتا ہے تو ہمارے مطالبات پورے کرے، عدم اعتماد کا آپشن موجود ضرور ہے لیکن فی الحال اس پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا، پیپلز پارٹی سے کہاہے کہ وہ اس معاملے پردیگرجماعتوں کواعتماد میں لے۔مولانا فضل الرحمان کاکہناتھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں سینیٹ الیکشن مشترکہ طور پر لڑنے کی تجویز پر بات چیت جاری ہے۔
طریقہ کار پرفیصلہ سربراہ اجلاس میں ہوگا۔ پی ڈی ایم میں سب جماعتیں اپنا اپنا مؤقف رکھتی ہیں لیکن فیصلے مشترکہ اور متفقہ ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری حکومت کی رخصتی پر مکمل اتفاق رکھتے ہیں، ان کاطریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے لیکن مقصد ایک ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا انہیں راولپنڈی کی طرف مارچ کرنے کا شوق نہیں لیکن غیرجانبداری دکھائی نہیں دے رہی، کیا عوام نہیں جانتے کہ گلگت بلتستان کے الیکشن میں کیا ہوااور اب آزاد کشمیر کے انتخابات کے لیے کون کیا منصوبہ بندی کررہاہے ۔
مولانافضل الرحمان نے جس طرح مذاکرات کے متعلق بات کی کہ کسی سے بات چیت نہیں ہورہی مگر چند ملاقاتیںایسی ہوچکی ہیںجومیڈیا پر بھی آئی ہیںکہ اپوزیشن نمائندگان کی نہ صرف عسکری قیادت سے بلکہ سیاسی جماعتوں کے چند ایک ارکان سے بھی بات ہوئی ہے مگر نتائج نہیں نکلے جس کی وجوہات کیا ہیں اس پر کھل کر اپوزیشن نے بات نہیں کی ہے مگر یہ بات واضح ہے کہ بیک ڈور بات چیت کسی نہ کسی طریقے سے چل رہی ہے، اپوزیشن بیشک اس سے انکار کرے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی دوبڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کاطریقہ کار اول روز سے ہی الگ ہے۔
گوکہ جلسوںمیں ایک اسٹیج پر دکھائی دیتے ہیں مگر بیانیہ کی صورت میںتضادات موجود ہیں جس کی ایک مثال عدم اعتماد کی تحریک ہے ۔بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چندروز میں پی ڈی ایم اجلاس کا مشترکہ فیصلہ کیا ہوگا لگتا یہی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کی بات زیادہ آگے نہیں چل پائے گی ،اپوزیشن فی الوقت سڑکوں پر ہی احتجاج کرکے دباؤ بڑھائے گی جس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔