بلوچستان اسمبلی کے حالیہ اجلاس ارکان اسمبلی کی عدم دلچسپی کا شکار ہورہے ہیں، عمومی طور پر دو سے زائد گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والے اجلاس جلد ہی کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی کے بعد کچھ دیر اور بعدازاں اگلے اجلاس تک کیلئے ملتوی کردیئے جاتے ہیں۔ ان اجلاسوں میں حکومتی ارکان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جبکہ اپوزیشن کی دلچسپی بھی محدود دکھائی دیتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی اجلاس کے متعلق ایک تاثر یہ بھی عام ہے کہ طویل اجلاس جاری رہتا ہے جس میں توجہ دلاؤ نوٹس، بل سمیت دیگر معاملات پر ایجنڈے لائے جاتے ہیں ۔
جس پر ارکان گھنٹوں بات کرتے ہیں جس میں چیدہ چیدہ پوائنٹ مکمل طورپر اوجھل ہوتے ہیں اگر سنجیدگی کے ساتھ چیدہ چیدہ پوائنٹس کو واضح طور پر بیان کیا جائے تو یقینا ان پر سب کی توجہ جائے گی خاص کر میڈیا کی شہ سرخیوں کے ذریعے عوام تک ان کی بات پہنچ جائے گی کیونکہ منتخب نمائندگان سے عوام بڑی توقعات رکھتے ہوئے انہیں اسمبلی بھیجتے ہیں جہاں پروہ ان کے مسائل کے حل کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر بلوچستان کا موازنہ دیگر صوبوں سے کیاجائے تو صورتحال بالکل مختلف دکھائی دے گی۔ ترقی کے حوالے سے تو بلوچستان کسی کھاتے میں نہیںآتا۔
باوجود اس کے کہ یہاں پر وسائل سب سے زیادہ ہیں اور بہت سے شعبوں میں اربوں روپے کی آمدن ہورہی ہے مگر تمام رقم براہ راست وفاق کو جاتی ہے جبکہ صوبہ کے حصہ میں آٹے میں نمک کے برابر رقم آتی ہے جس کا مقدمہ انہی اراکین اسمبلی نے لڑنا ہے۔ حکومت اوراپوزیشن دونوں ہی اس میں مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں بشرطیکہ صوبے کے مفادات کیلئے دونوں کو ایک پیج پر ہونا چاہئے بجائے تنقید برائے تنقید کے ایک واضح روڈ میپ تیار کیاجائے ۔بدقسمتی سے بلوچستان میں ماضی میں جتنی بھی حکومتیں گزری ہیں ان کی ترجیحات میں عوامی مسائل شامل ہی نہیں رہے۔
بلکہ حکومت بنانے کیلئے سیاسی جماعتیں بلیک میلنگ کا شکار ہوکر وزیروں، مشیروں کی فوج کھڑی کردیتے ہیں یہاں تک کہ انھیں غیر ضروری عہدے تک دیئے جاتے ہیں جوصوبے کے خزانے پر بوجھ تو بن ہی جاتے ہیں اس کے ساتھ کرپشن بھی بے تحاشہ کرتے ہیں جس کی واضح مثال ہمارے میگامنصوبوں میں ہونے والے اسکینڈلز ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ خود یہاں وزیراعلیٰ بننے والی شخصیات اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اتحادیوں کو خوش کرنا مجبوری ہے وگرنہ ان کیخلاف اندرون خانہ محاذ کھول دیاجاتا ہے اور معاملہ عدم اعتماد کی تحریک تک پہنچ جاتی ہے۔
اس لئے انہیں ساتھ لیکر چلنے کیلئے کسی نہ کسی جگہ ایڈجسٹ کیاجاتا ہے تاکہ انہیںخوش کرتے ہوئے اپنی مدت پوری کی جاسکے۔ اگر حکومتیں اس طرح دباؤ میں رہ کر کام کرتی ہیں تو اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ عوامی اعتمادان کے ساتھ نہیں اور بڑی وجہ عوامی مفادکے منصوبوں کی بنیاد اور ان کی تکمیل نہیں ۔آج بھی بلوچستان بنیادی مسائل سے دوچار ہے جس میں پانی، بجلی، گیس، روزگار، صحت، تعلیم سمیت تمام ضروریات زندگی شامل ہے اس لئے خدارا اراکین اسمبلی کو چاہئے کہ بلوچستان کے عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسمبلی فورم پر ان کو حل کرنے کیلئے بھرپور کوشش کریں۔
جس سے عوام کی زندگی میں تبدیلی آسکے ۔جو معاملات التواء کا شکار ہیں انہیں پورا کرنے پر زور دیاجائے یہ اس وقت ممکن ہوگا جب منتخب نمائندگان اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرینگے کہ عوام نے انہیں ووٹ دیکر اسمبلی میں اس لئے بھیجا ہے کہ وہ ان کی زندگی میں تھوڑی بہت تبدیلی لائینگے۔ لہٰذا لمبی تقاریر بلوچستان کے مسائل کا حل نہیں بلکہ عملاََ اقدامات سے ہی تبدیلی آئے گی جس کے عوام منتظر ہیں۔