کراچی: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ جام کمال اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا ہے انہیں وزیراعلیٰ بنانے کے لئے راتوں رات نئی پارٹی بنا کر صوبے کواس کے قبضے میں دیا گیا ہے جمہوری جدوجہد سے جام کمال اور ان کے گروپ سے بلوچستان کو چھٹکارا دلوائیں، بلوچستان کے حقوق کی تحریک نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔
نفرتوں میں کمی لانے کے لئے 1940ء کی قرارداد کو بنیاد بنا کر قومی سطح پر ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے ،ملک کی خارجہ پالیسی تلور پر چل رہی ہے اور لوگ بلاوجہ شاہ محمود قریشی کو برا بھلا کہتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز کراچی پریس کلب کے نومنتخب کابینہ کو مبارکباد دینے کے موقع پر صحافیوں سے ملاقات میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔
اس موقع پر سینئر صحافی نذیر لغاری ، کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی ،سیکرٹری جنرل ، رضوان بھٹی، سابق صدر کراچی پریس کلب امتیاز خان فاران،سینئر صحافی سعیدسربازی،عارف بلوچ ، شاہد جتوئی، رفیق پٹیل ،سعید جان بلوچ ودیگر بھی موجود تھے ۔ نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہا کہ ہماری قومی شناخت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر بلوچستان کے حقوق کی تحریک اب گراس روٹ لیول تک پہنچ کر نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک منظم انداز میں معاشی عدم استحکام کے زریعے معاملات کو اس نہج تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جواز پیداکیا جا ئے کہ پاکستان بچائیں یا ایٹم بم ؟ انہوں نے کہا کہ73 سالوں سے یہی سنتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کی بدحالی کے ذمہ دار سردار ہیں میں ان سے پوچھتاہوں کہ کیا پاکستان کو آئی ایم ایف کا مقروض انہی سرداروں نے کیا ہے ؟
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت پاکستان کے تمام مسائل کا حل حقیقی جمہوری نظام سے ہی ممکن ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ 1973ء کے آئین کو حقیقی معنوں میںنافذ کرکے اس پر عملدرآمد کرایا جائے ، انہوںنے کہا کہ بی ایس او کی سابق چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کے قتل کے وہی لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں نے انہیں بلوچستان چھوڑنے پر مجبور کیا۔
وفاق کے خلاف نفرتوں میں کمی لانے کے لئے 1940ء کی قرارداد کو بنیاد بنا کر قومی سطح پر ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر بلوچستان کا حصہ ہے اس کے لئے آئین میں ترمیم کی جائے تاکہ گوادر اور بلوچستان کے لوگوں کو یہ باور ہوسکے کہ وہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں اس جمہوری راستے کو اپنایا جائے تو حالات بہتری کی جانب جاسکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کیلئے لاپتہ افراد اور افغان مہاجرین کا مسئلہ انتہائی اہم ہے 40لاکھ افغان شہری بلوچستان کے وسائل پر قابض ہیں انہیں باعزت طریقے سے واپس بھیجا جائے اور وفاقی حکومت ملازمتوں پر بلوچستان کے کوٹے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔انہوں نے کہا کہ ہمیںاب پتہ چلاہے کہ تلور پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جز ہے۔
ملک کی خارجہ پالیسی تلور پر چل رہی ہے اور لوگ بلاوجہ شاہ محمود قریشی کو برا بھلا کہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جام کمال اسٹیبلشمنٹ کا چہیتاہے ،انہیں وزیراعلیٰ بنانے کے لئے راتوں رات نئی پارٹی بنا کر صوبے کواس کے قبضے میں دیا گیا ہے یہ لوگ اب ریکوڈک بیچنے کی تیاری کررہے ہیںہماری کوشش ہے کہ جمہوری جدوجہد سے جام کمال اور ان کے گروپ سے بلوچستان کو چھٹکارا دلوائیں۔
قبل ازیں کراچی پریس کلب پہنچنے پر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی کا پرتپاک استقبال کیا گیا اور انہیں سندھی اجرک پہنائی گئی ، نوابزادہ لشکری رئیسانی نے کراچی پریس کلب کے دورے کے موقع پر پریس کلب کے مختلف حصوں کا تفصیلی معائنہ بھی کیا ۔