کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں گزشتہ دو سال کے دوران اسمبلی کی منظور شدھ قرار دادوں کی بابت پیش رفت،بلیلی کوئٹہ براستہ اغبرگ تا درینگڑھ بازار شاہراہ کو این ایچ اے کے حوالے کرنے اور ملک کے67میڈیکل کالجز او رمیڈیکل یونیورسٹیز میںبلوچستان کی نشستیں کم کرنے کے خلاف تین الگ الگ قرار دادیں منظور کرلی گئیں۔
جمعرات کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان صوبائی اسمبلی نے متفقہ طو رپر گزشتہ دو سال کے دوران درجنوں اہم عوامی وصوبہ کے اہم معاملات سے متعلق جو قرار دادیں منظور کیں لیکن صوبائی حکومت نے بجٹ و پالیسی کی تشکیل کے عمل میںان قراردادوں کو یکسر نظر انداز کیا ہے جوا س ایوان کے تمام ممبران کے استحقاق مجروح کرنے اور ایوان کے ضابطہ کار کی خلاف ورزی ہے اس لئے پندرہ یوم میں گزشتہ دو سال کے دوران تمام پاس شدہ قرار دادوں کی بابت جو بھی پیش رفت ہوئی ہے۔
اس کی مکمل تفصیل ایوان میں پیش کی جائے اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے اداروں کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی ہے ۔ قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ثناء بلوچ نے کہا کہ میں آج اپنی قرار داد احتجاجاً بات نہیں کرنا چاہتا ہم خالی کرسیوں اور دیواروں سے باتیں کریں یا گیلری میں موجود مہمانوں سے باتیں کریں اس ایوان کی ماضی میں بہت بڑا احترام ہوتا تھا یہاں پر سردار عطاء اللہ خان مینگل ۔
نواب اکبرخان بگٹی اور خان شہید عبدالصمدخان اچکزئی جیسے اکابرین ہوتے تھے اور یہاں سے بلوچستان کے مستقبل کے فیصلے ہوتے تھے آج یہ ایوان اتنا بے وقعت ہوگیا ہے کہ سوالات اور توجہ دلائو نوٹسز کے جوابات تک نہیں ملتے میری یہ قرار داد انتہائی اہم ہے جبکہ اس سے قبل اس ایوان سے متفقہ طو رپر کئی اہم قرار دادیں منظور ہوئیں مگر کسی پر عملدرآمد نہیں ہوا اور ہم یہاں بیٹھ کر یہ باتیں کررہے ہیں کہ ہم وفاق میں جا کر اپنی بات منوائیں گے۔
اس موقع پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے مابین تند وتیز جملوں کا تبادلہ ہوا کئی ارکان بیک وقت بولتے رہے چیئر مین قادر علی نائل اراکین کوخاموش کراتے رہے تاہم ارکان مسلسل بولتے رہے اوران کے درمیان بار بار تندو تیزجملوں کا تبادلہ ہوتا رہا اجلاس کی صدارت کرنے والے قادر علی نائل نے حکومتی و اپوزیشن کے ارکان کے تمام غیر پارلیمانی الفاظ کارروائی سے حذف کرنے کی رولنگ دی ۔
ثناء بلوچ نے کہا کہ ہماری اس ایوان سے 25قرار دادیں متفقہ طو رپر منظور ہوئی ہیں وفاق تو دور کی بات صوبائی حکومت بھی ان پر عملدرآمد نہیں کررہی لہٰذا میں احتجاجاً مزید بات نہیں کروں گا ۔ا یوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔جے یوآئی کے میر زابد علی ریکی نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بلیلی کوئٹہ براستہ اغبرگ تا درینگڑھ بازار نہایت اہمیت کی حامل شاہراہ ہے ۔
جو کوئٹہ شہر سے رش کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے اگر اسے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حوالے کیا جائے ۔ قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ بلیلی کوئٹہ براستہ اغبرگ تا درینگڑھ بازار شاہراہ کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے حوالے کرنے اور اس کے لئے فنڈز مختص کرنے کو یقینی بنائے تاکہ کوئٹہ شہر سے ٹریفک کا رش کم کیا جاسکے ۔
قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا زابد علی ریکی نے کہا کہ ہم یہاں تمام ارکان بلوچستان کے عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور ہم بلوچستان کے عوام کے حقوق اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے قرار دادیں لاتے ہیں مگر یہاں جب حکومتی بینچز خالی پڑی ہوں اور ہماری قرار دادوں پر عمل بھی نہ ہو تو پھر ہم کیا بات کریں ۔ کوئٹہ شہر میں ٹریفک کی صورتحال سب کے سامنے ہے ۔
مشرقی اور مغربی بائی پاس پر انتہائی رش رہتا ہے میری قرار داد بھی اسی سلسلے میں ہے مگر وفاق کی طرح صوبائی حکومت بھی ہمیں نظر انداز کررہی ہے جس پر میں اپنی قرار داد پر مزید بات کرنا نہیں چاہوں گا بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی ۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے67میڈیکل کالجز او رمیڈیکل یونیورسٹیز میںبلوچستان اور فاٹا کے باالترتیب134اور133میڈیکل طلباء اور طالبات کی سیٹیں مختص ہیں۔
اور اس طرح ہر میڈیکل یونیورسٹی اور میڈیکل کالج میں دو سیٹیں ریزرو ہیںجو کہ ایچ ای سی کے ماتحت ٹیسٹ کے ذریعے مذکورہ بالا طلباء اور طالبات کی سلیکشن ہوتی ہے مگر اب پاکستان میڈیکل کمیشن نے بیک جنبش قلم ان سیٹوں کو ختم کرکے بلوچستان کے لئے صرف پندرہ سیٹیں رکھ دی ہیںجو کہ ہمارے صوبے کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے ۔
قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ فی الفور وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ بلوچستان کے 135سیٹوں کو بحال کرنے کو یقینی بنائے ۔قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے محرک نے کہا کہ ایچ ای سی کے تحت 2008ء میں ہمارے صوبے کے طلبہ کے لئے اسکالرشپس کا اعلان ہوا تھا ہماری تقریباً135نشستیں ہیں ۔
پاکستان کے مختلف 67میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں ہمارے طلباء کے لئے مختص نشستوں پر میرٹ کے مطابق داخلے دیئے جاتے ہیں مگرپاکستان میڈیکل کائونسل نے ہماری 134نشستوں کو کم کرکے صرف پندرہ کردیا ہے جو بلوچستان کے طلباء کے ساتھ ناانصافی ہے ہمارے طلبہ کی سلیکشن بھی ہوچکی تھی جبکہ ملک کے اعلیٰ میڈیکل کالجزمیں ہمارے جن طلباء کے داخلے ہوئے تھے۔
انہیں منسوخ کرکے نہایت ہی کم رینکنگ کے کالجز میں داخلے کئے گئے حالانکہ ہمیں 2022ء تک یہ نشستیں برقرار رکھنے کا یقین دلایا گیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تو ان سیٹوں کو134سے بڑھا کر360کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس کے برعکس ہمیں ماضی میں ملنے والی مراعات اور سہولیات بھی چھینی جارہی ہیں انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارے طلباء کے لئے مختص سیٹیں بحال اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلوں کو یقینی بنایا جائے ۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے احمدنواز بلوچ نے بھی قرار داد کی حمایت کی اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرنے والے پینل آف چیئرمین کے رکن قادر علی نائل نے حکومتی ارکان کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ اجلاس میں اس سلسلے میں ہون والی پیشرفت سے آگاہ کریں بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔