|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2021

حقیقی فلسفہ حیات یہی ہے کہ موت صرف جسم کی ہوتی ہے۔ روح اور کردار کی موت ہرگز نہیں ہوتی۔ روح اپنے اصل مقام جا کر پہنچتی ہے اور کرداراس جہان رنگ وبو میں بسنے والوں کے لئے ایک مشعل راہ ہوتا ہے۔اسی طرح ایک مشعل نما شخصیت بلوچستان کی سیاست اور صحافت میں ایک بڑا نام ماما صدیق کا ہے۔ وہ ایک صوفی منش ،غریب پرور ، محنت کش اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ماما صدیق ایک ایسا باکمال کردار تھے کہ زندگی کے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ اسی طرز کاہوتا تھا۔ وہ اپنی شخصیت میں ہر فن مولا تھے ، تبھی تو میں نے انہیںایک صوفی منش انسان کہا ہے۔

ایک صوفی کے دربار میں بھی سبھی اپنی اپنی حاضری دینے حاضر ہوتے ہیں۔ اور یہی ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا کہ ماما صدیق کے دفتر واقع سریاب روڈ کوئٹہ میں سیاست دان، بیوروکریٹ،قبائلی شخصیات،افسران بالا، ڈاکٹرز ،انجینئرز ،سینئر زصحافی، اسٹوڈنٹ ،ادیب ودانشور،راہ چلتے راہ گیر ، محنت کش ، فقیر وغریب اور تو اورکچرے چننے والے معصوم بچے سب کے سب ماما صدیق کے دربار میں آتے اور وہاں یہ صوفی منش انسان ہر کسی سے ان کی طبیعت ومقصد کے مطابق ملتا اور اپنی دریا دلی سے انہیںفیضاب کرتا۔معذرت کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ہاں علم وادب اور صحافت کی دنیا میں اکثر وبیشتر سخاوت کم اوربخل زیادہ ہے۔

تاہم ماما صدیق ذر ہ ہٹ کے ایک صحافی اور دانشور تھے، ان کی سخاوت کے چرچے مشہور تھے۔ان کا دسترخوان صحافیوں سے لے کر ہر عام وخاص کے لئے ہمہ وقت حاضررہتا ۔ماما صدیق ہر حوالے سے ایک سخی انسان تھا وہ علمی طور پر بھی اپنا علم بانٹتا رہتا۔ اپنی زندگی کے سیاسی، صحافتی اورسماجی طور پر تجربات شیئر کرتا ۔کبھی کوئی چیز کسی سے نہیں چھپائی ، اپنی زبان، قلم اور اپنے کردار کے ذریعے علوم وفنون کو اجاگر کرتے ہوئے زندگی کی آخری سانسوں تک اپنا یہ کام سرانجام دیا۔ آج یہی وجہ ہے کہ سندھ، بلوچستان اور پورا ملک کیا ، پوری دنیا میں ان کے شاگرد پائے جاتے ہیں۔

جنہوں نے ان کی زندگی کی درس گاہ سے بہت کچھ حاصل کیا اور اب اس جہان رنگ وبو کے مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ ماما صدیق واقعی میں ایک دانش ور تھا ، ایک تاریخ بیان کرنے والا قصہ گو تھا، ایک نصیحت کرنے والا عظیم انسان تھا۔ اس کے ہزاروں واقعات اور باتیںایسی ہیں جو شیخ سعدی ودیگرعظیم انسانوں کی طرح نصیحت آموز حکایتیں ہیں ۔ان سے ملنے والے کسی بھی شخص سے آج بھی کہیں بھی ملو ،تو وہ ماما صدیق کی کوئی نہ کوئی دلچسپ بات ضرور بتائے گا ۔ جس کی عرق ریزی انسانیت کی بھلائی ہو گی۔وہ نہ صرف صحافی تھا بلکہ اپنی زندگی کے میدان میں ایک مکمل انسان، صحت پر ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ وہ ایک ماہر معالج ہیں۔

بلوچستان سے لے کر خطے اور پوری دنیا کے معاشی معاملات پر ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا کہ یہ تو ایک ماہر معاشی امورہے ،سیاسی واقعات کے قصے کہانیوں اور مدہم اندازبیان سے لگتا کہ یہ تو ایک سیاستدان ہے۔ المختصر سیاسی دانا،وطن دوست رہنما، مٹی سے محبت کا ملہاراورحقیقی دانشوری بھی تو یہی ہے کہ گفتار کے غازی کے بجائے کردار کا قاضی بنو ۔ اور اپنے فعل وقول اور کردار کے ذریعے انسانوں کی خدمت کرو ، ان کی زندگی کو سہل بناؤ ۔ ان کے لئے کوئی لائحہ عمل پیش کرو ،آنے والی نسلوں کے لئے ایک روشن مستقبل کی بنیاد رکھو۔ ان تمام عوامل کا اندازہ ماما صدیق سے ملاقات کرنے والوں کو خوب ہو گااور جنہیں ان سے ملاقات کا شرف حاصل رہا۔وہ ان کی تحریروںکو پڑھیں۔

ماما صدیق کی زندگی کے سینکڑوں پہلو ہیں ، جو جیسا تھا ماما صدیق اس کو ویسا لگا ۔ہر کسی نے اپنے اپنے تئیں ان کی شخصیت کو دیکھا، جانچا اور پرکھا ۔تاہم راقم الحروف نے ماما صدیق کو زندگی کے اس موڑ پر دیکھا ، جب وہ سیاست کو خیر آباد کرکے صحافت وسماجیات اور علم وفن اور قلم کے توسط سے مظلوموں کی جنگ لڑرہے تھے۔ غریبوں کے حقوق کی بات کر رہے تھے ۔ سرمایہ داروں اور معاشی ٹھیکیداروں سے معیشت کے منصفانہ تقسیم کی ڈیمانڈکر رہے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بلوچستان کے معاشی وسماجی پہلوؤں کو زیادہ تر موضوع بحث بنایا۔ بلوچستان کے معاشی وسائل، معاشی معاملات ، ہاریوں ، ماہی گیروں اور محنت کشوں کے حقوق صحافت کی زبان زدعام سے اگر پڑھنے ہیں۔

تو ماما صدیق کی کتابیں اور بلوچستان ایکسپریس وروزنامہ آزادی کے اداریے پڑھ کر خوب پیاس بجھائیںکہ کس طرح انہوں نے صحافت کی آسان زبان میں دانشور انہ ضرب لگائی ہے۔ماما صدیق نے اپنے قلم کے ذریعے نصیر آباد وکچھی کے غریب ہاریوں سے لے کر گوادر کے مسکین ماہی گیروں وبلوچستان کے محنت کش طبقہ کے حقوق کی جنگ لڑی ہے۔بلوچستان کے غریب، محنت کش ،تھکے ہارے جسموں اور پسینوںسے شرابور ہاریوں کا انہیں خوب ادراک تھاکیونکہ انہوں نے ایک ماہرصحافی ہونے کے ناطے اپنی فیلڈ کے دوران پورے بلوچستان کا قریہ قریہ، بستی بستی گھومے پھرے ۔

اپنے تجربات ومشاہدات کے توسط سے وہ بلوچستان کے حالات وواقعات بیان کرنے میں ایک ماہر گفتار تھے۔انہوں نے بلوچستان کے حوالے سے اخبارات کے درجنوں صفحات پرمشتمل خصوصی ضمیمے نکالے۔اسی لئے تو انہیں ’’سفیر بلوچستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔یہ دلخراش امر تھا کہ 2018 ء کا فروری نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے غریبوں ، مسکینوں اور ہاریوں کے لئے گراں گزرا ، اس ماہ میں انسانی حقوق کی علمبردار محترمہ عاصمہ جہانگیر، سندھ کے معروف سیاسی وسماجی اور ادیب ودانشور جام ساقی سمیت بلوچستان کے ہاریوںا ور ماہی گیروں کے حقوق کے علمبردار ماما صدیق ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔

ماما صدیق کو محنت کشوں سے زیادہ محبت تھی۔ ماما اکثر فرمایا کرتے کہ محنت کی کمائی کی اپنی تاثیرہے۔تیارخورانسان کی قدر نہیں ہوتی۔ اسے کسی کی پرواہ اور عزت واحترام کا احساس نہیں ہوتا۔ جو پیدائشی سونے کا چمچ اپنے منہ میں لے کر آتے ہیں ،انہیں محنت کش کے پسینے کی خوشبو …بدبو… لگتی ہے۔ محلات میں پلنے والے اور برگر فیملی والوں کو ایک عام انسان کی عزت ونفس اور محنت ومعیار کا پتہ نہیں ہوتا۔ وہ اپنے کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں ۔ان کے لئے سب کچھ مایا ہے۔ماما صدیق کے ساتھ زندگی کی تقریباًدو دہائیاں گزریںجس کی عرق ریزی یہ ہے کہ انسان کو اپنے کام سے کام رکھ کر جہد مسلسل اور مستقل مزاجی سے کام کرنا ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔

اسی طرح ماما صدیق کے ساتھ زندگی کی پہلی ملاقات بھی ایک یادگاراور سبق آموز رہی کہ جب راقم الحروف نے میٹرک کے بعدپریکٹیکل زندگی میں اپنا پہلا قدم رکھا تو بطور آفس اسسٹنٹ ’’اورینٹ مکین ایریکسن پرائیویٹ کمپنی‘‘بلوچستان کے ڈائریکٹر مرحوم راجہ لیاقت حیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ کمپنی کے اشتہارکے سلسلے میں ’’ڈیلی بلوچستان ایکسپریس ‘‘کے (اس وقت کے دفتر میر احمد خان روڈ نزدمیکانگی روڈ واقع) جانا ہوا ،وہاں دفتر کے ایک کمرے میں داخل ہوا تو ایک شخص اپنے کام میں مصروف تھا۔ میں نے ان کے قریب جا کر سلام کیا۔سلام کا جواب دینے کے بعد بھی اپنے کام میں مگن ہی رہا۔

میںنے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ صدیق بلوچ سے ملنا ہے ۔ راجہ لیاقت حیات نے اورینٹ سے بھیجا ہے۔ تب انہوں نے بات کی کہ اشتہار کے سلسلے میں آئے ہو۔میں نے کہا کہ جی ، تو انہوںنے کہا کہ اشتہار ٹیبل پر رکھ دو ۔سامنے کولر پڑا ہے پانی پیو اور کوئی کام تو نہیں ۔میں نے کہا کہ نہیں۔ یہ کہنے کے بعد وہ پھر ٹائپ رائٹر پر ٹائپنگ میں مصروف ہو گیا۔ یہ ماما صدیق کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔جن کے چند الفاظ میں نصیحت والوں کے لئے نصیحت ، کام کر نے والوں کے لئے کام اورمہمان نوازی بھی صاف عیاں تھی۔
بعدازاں وہ اورینٹ کے دفتر واقع کبیر بلڈنگ راجہ لیاقت حیات کے پاس آتے جاتے ، تو راجہ کے ساتھ ماما کی نشستوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہوتا رہتا تھا۔وہ اکثر مجھے’’ سائیں‘‘ کے نام سے پکارتے رہتے تھے۔

راجہ لیاقت حیات کے توسط سے ہی سینئر صحافی سلیم شاہد سے بھی شناسائی ہوئی۔ پھرمیری زندگی میں ان تکون نما تین شخصیات کا گہرا اثر رہا۔ موجودہ صدی کے اوائل میں ماما صدیق نے روزنامہ آزادی اردو اخبار کا اجراء کیا ۔ سلیم شاہد اور ماما صدیق کے آپس میںپرانے مراسم تھے۔ ایک دن سلیم شاہد نے اپنے ڈان کے آفس میں مجھے کہا کہ ماما صدیق سے جا کے ملو ۔میں نے انہیں آپ کے بار ے میں کہا ہے وہ ایک اردو اخبار کا اجراء کر رہے ہیں ۔ اس میں کہیں آپ کو ایڈجسٹ کریں گے۔ میں سریاب روڈ متعلقہ ایڈریس پر ماما صدیق کے دفترجاپہنچا، عصر کا وقت تھا ۔

ماما صدیق حسب معمول اپنے دفتر میںکام میں مصروف تھے۔سلام دینے کے بعد ماما صدیق سے ملاقات ہوئی ۔سلیم شاہد کا پیغام پہنچایا ۔ماما صدیق نے کہا کہ ہاں مجھے سلیم نے فون کیا تھا۔ ’’سائیں ‘‘آپ بے فکر ہو جاؤ ۔ یہ آپ کا اپنا ادارہ ہے ۔ آج سے کام شروع کر و۔ اس دوران میں نے باقاعدہ اخبار کی دنیا میں اپنا پہلا قدم رکھا۔ ماما صدیق کی نگرانی میں کام کرنے کا بھی اپنا مزا تھا۔ اس کے غصے وڈانٹ میں بھی ایک نصیحت ہوتی تھی۔اور آج یہ مقام ہے کہ ناچیز بھی صحافت کے ایک بڑے خبر رساں ادارے سے منسلک ہے ۔ تاہم یہ امر حقیقی ہے کہ موت تو ہر حال میں آنی ہے۔

ہر کوئی اپنا اپنا وقت گزار کر اس جہانِ رنگ وبو کو چھوڑ کر چلا جائے گا۔ مگر کچھ لوگوں کی موت دیگر انسانوں کی حیات ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اس صوفی منش انسان ’’ماماصدیق ‘‘کی صحبت میں رہنے والے شاگرد اوراس محبوب سے محبت کرنے والے لوگ اپنی اپنی زندگی کے سفر میں محو پرواز ہیں۔ اللہ تعالیٰ ماما صدیق کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور کروٹ کروٹ اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے،آمین۔