وفاقی کابینہ نے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے کی منظوری دیدی ۔اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ سے سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کروانے کی منظوری سرکلر سمری کے ذریعے لی گئی۔ حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق آرڈیننس تیار کر لیا ہے اور سینیٹ انتخابات سے متعلق آرڈیننس کا مسودہ وزیراعظم کوبھجوا دیا گیا ہے۔
نئے آرڈیننس کی ڈرافٹنگ اٹارنی جنرل خالد محمود خان نے کی ہے اور وزیراعظم کو بتایا گیا کہ سینیٹ الیکشن کا شیڈول 11 فروری کو جاری ہو گا۔واضح رہے کہ سینیٹ انتخابات کا کیس ابھی سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز کی ملاقات میں آرڈیننس کے ذریعے سینیٹ الیکشن شوآف ہینڈ سے کرانے کے اقدام کی شدید مخالفت کافیصلہ کیا گیا ۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر سینیٹ الیکشن کا طریقہ کار تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ مریم نواز نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں پتا چل جائے گا کون کس کے ساتھ کھڑا ہے، تحریک عدم اعتماد کا آپشن مسترد نہیں کیا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آرڈیننس کے معاملے پر عدالت بھی جانا پڑا تو جائیں گے۔ دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ حکومت سینیٹ الیکشن کو مکمل شفافیت سے کرانا چاہتی ہے، مخالفت کرنے والے پیسے کے ذریعے سیاست کرنا چاہتے ہیں۔
شبلی فراز نے کہا کہ اِن کا ایمان پیسوں پر ہے اور پیسوں سے ہی اِنہوں نے لوگوں کو خریدا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف کو اتحادیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے ، کچھ دنوں میں پی ٹی آئی کے نمبر آجائیں گے، کسی سیاسی جماعت سے کوئی ڈیل نہیں چل رہی۔شبلی فراز نے کہا کہ ملک کو لوٹنے والوں کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں ہوسکتی، اپوزیشن کی عادت ہے کہ بغیر پڑھے مٹھائی تقسیم کرنا شروع کردیتے ہیں۔
بہرحال ملک میں اس وقت سینیٹ انتخابات سب سے بڑا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں خاص کر اوپن بیلٹ سے کروانے پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بیان بازی تیروں کے نشتر کے ساتھ ساتھ قانونی حوالے سے بھی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں ایک بات بالکل سیاسی افق سے غائب ہوچکی ہے جو پی ڈی ایم تحریک کالانگ مارچ ہے ، جنوری کے مہینے میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی باتیں سامنے آرہی تھیںکہ اپوزیشن بیک فٹ پر چلی جائے گی ۔
جبکہ بعض اہم اپوزیشن رہنماء خاص کر مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف بھی جیل میں نظر آئینگے جبکہ اپوزیشن کی جانب سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ جنوری کے مہینے میں حکومت گھر چلی جائے گی۔ جنوری گزرگیا دونوں اطراف کے دعوے ہوا میں اڑگئے، اب تو اپوزیشن بھی اپنی حکومت مخالف تحریک سے کافی پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے اور سینیٹ انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے ۔
بکہ بلاول بھٹو نے عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز دی تھی اور اب مریم نواز بھی یہی بات کہنے لگی ہیں مگر جو سیاسی ماحول اور حالات دکھائی دے رہے ہیں ان سے ایک بات واضح ہے کہ سینیٹ انتخابات ہی نئے سیاسی حالات کی سمت کا تعین کریں گے مگر اس تمام تر صورتحال میں یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ اپوزیشن اس وقت حکومت مخالف تحریک میں قانونی جنگ کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے سینیٹ انتخابات ہوں یا پھر عدم اعتماد کی تحریک کا معاملہ ہو ،اپوزیشن کے بیانات اور رویہ سے واضح ہے کہ وہ فی الوقت یکدم سے سڑکوں پر بڑا کوئی احتجاج کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ بہرحال سینیٹ انتخابات کے بعد ہی سیاسی منظر نامہ واضح ہوجائے گا۔