|

وقتِ اشاعت :   February 9 – 2021

سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ لگتا ہے آرڈیننس مفروضاتی اصول پر مبنی ہے، صدر مملکت کو آرڈیننس کے اجراء سے نہیں روکا جاسکتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر آرڈیننس میں کوئی تضاد ہے اورعدالت ریفرنس کا جواب نفی میں دیتی ہے تویہ خود بخود غیرمؤثر ہوجائے گا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟

سپریم کورٹ میں سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، عدالت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم سے متعلق گزشتہ دنوں جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس کے خلاف جے یو آئی کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت سینیٹ میں بدعنوان لوگوں کی نمائندگی کی حامی نہیں، سندھ حکومت کے ذریعے پیپلزپارٹی یہاں فریق ہے، حکومت جماعت سے الگ نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نہ حکومت سیاسی جماعت کی طرف سے بات کرسکتی ہے۔

نہ سیاسی جماعت حکومت کی طرف سے، اٹارنی جنرل نے کہا بڑی عجیب بات ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیپلزپارٹی کی نمائندگی کررہے ہیں، میں یہاں پی ٹی آئی کی طرف سے نہیں وفاق کی نمائندگی کررہا ہوں۔وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے عدالت میں کہا کہ حکومت نے صدارتی ریفرنس کے حوالے سے عدالتی کارروائی کا احترام نہیں کیا، عدالت اوپن بیلٹ کے بارے میں صدارتی ریفرنس سن رہی ہے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا۔اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرڈیننس کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ سینیٹ الیکشن شیڈول 11 فروری کے بعد آرڈیننس جاری ہونے سے مسائل ہوسکتے تھے، آرڈیننس سپریم کورٹ کی رائے کی روشنی میں رْو بہ عمل ہوگا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا مطلب ہے کہ ووٹنگ سیکریٹ ہوگی لیکن بیلٹ کی بوقت ضرورت شناخت ہوسکے گی، اٹارنی جنرل نے کہا فرض کریں سپریم کورٹ رائے نہیں دیتی تو 11مارچ کو سینیٹ الیکشن سیکرٹ ووٹنگ سے ہوگا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا آرٹیکل 226 کے تحت وزیراعظم اور وزراء سمیت دیگر انتخابات کا طریقہ کار خفیہ کیوں رکھا گیا ہے؟

ہم نے اپنے ملک میں اچھے سیاستدان بھی دیکھے ہیں، سب سیاستدانوں کو ایک ترازو میں نہیں تولنا چاہیے، 1985 کے عام انتخابات کی مثال ہمارے سامنے ہے، 1985 کے انتخابات غیرجماعتی بنیاد پر ہوئے، محمد خان جونیجونے حکومت بنائی اورپیسے کا بے دریغ استعمال ہوا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ پیسے لے کر ووٹ دینے والوں کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کردے، کیس کی مزید سماعت 10 فروری تک ملتوی کر دی گئی۔ بہرحال سیاستدانوں کے درمیان اس وقت سینیٹ انتخابات کو لے کر یہ بات ہورہی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہوسکتی ہے اور کچھ کہہ رہے ہیںکہ نہیں مگر ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کا ریکارڈ موجود ہے کہ کس طرح سے غیر مقبول عوامی نمائندے اور کاروباری حضرات نے سینیٹ الیکشن میں پیسہ لگاکر نہ صرف ٹکٹ حاصل کیا ۔

بلکہ ایوان بالاکے رکن بھی بنے ۔یہی صورتحال جنرل الیکشن میں دیکھنے کوملتی ہے کہ غیرمقبول شخصیات پیسہ کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے الیکشن کا حصہ بن کر جیت جاتے ہیں اور بعد میں سیاست کاروبارکیلئے کرتے ہیں جس سے وہ بے تحاشا پیسے بناتے ہیں۔آج ملک میں جو کرپشن عروج پر ہے اس کی وجہ کرپٹ سیاستدان ہیں مگر سب کو ایک ترازو میں واقعی نہیں تولنا چاہئے البتہ اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ سیاست عوامی خدمت کی بجائے کرپشن کا روپ دھار چکی ہے اور اس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہوچکی ہیں کہ جس کا صفایا کرنا انتہائی مشکل بن چکا ہے۔ سیاستدان جتنے بھی دعوے کریں اس بات کی نفی نہیں ہوسکتی کہ ہمارے یہاں کرپشن نے پورے نظام کو مفلوج بناکر رکھ دیا ہے ۔