پاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ الیکشن کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کردیا۔وزیراعظم کی زیر صدارت تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس ہوا جس میں سینیٹ انتخابات کے لیے امیدواروں کو فائنل کیا گیا اور وزیراعظم کی منظوری کے بعد حتمی ناموں کا اعلان کیا گیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ الیکشن کے لیے پنجاب سے سیف اللہ نیازی، اعجاز چوہدری، عون عباس، علی ظفر اور ڈاکٹر زرقا کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔سندھ سے فیصل واوڈا اور سیف اللہ ابڑو امیدوار ہوں گے۔
جب کہ خیبرپختونخوا سے شبلی فراز، محسن عزیز، ذیشان خانزادہ، فیصل سلیم، نجیب اللہ خٹک، دوست محمد اور ڈاکٹر ہمایوں مہمند امیدواروں میں شامل ہیں۔ثانیہ نشتر، فلک ناز چترالی اور گوردیپ سنگھ بھی خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کے امیدوار ہوں گے۔حکمراں جماعت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور فوزیہ ارشد کو امیدوار نامزد کیا ہے۔اس کے علاوہ بلوچستان سے عبدالقادر تحریک انصاف کے سینیٹ کے امیدوار ہوں گے۔تحریک انصاف کی جانب سے بابر اعوان، شہزاد اکبر، عامر مغل اور سجاد طوری سینیٹ کا ٹکٹ حاصل نہ کرسکے۔
واضح رہے کہ ملک میں سینیٹ انتخابات کا انعقاد 3 مارچ کو کیا جائیگا جس کے لیے کاغذات نامزدگی 15 فروری تک جمع کرائے جاسکتے ہیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی بلوچستان نے مرکز کی جانب سے عبدالقادر کو سینٹ دینے کی مخالفت کردی۔ پی ٹی آئی کے ایک گروپ کی جانب سے پریس کانفرنس کے دوران حاجی نواب خان دومڑ کا کہناتھا کہ بلوچستان سے سینیٹ ٹکٹ غیر متعلقہ شخص کو دیا گیا ہے۔بلوچستان میں پی ٹی آئی کے 4 ریجنز ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ اس فیصلے کی سب نے مخالفت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے آئین میں ہے کہ اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کو سینٹ ٹکٹ دی جائے گی جبکہ پی ٹی آئی مرکز کی جانب سے بلوچستان سے عبدالقادر کو ٹکٹ دیا گیا۔ عبد القادر پیراشوٹر ہیںجسے ٹکٹ دینے کا فیصلہ قبول نہیں۔انہوں نے کہاکہ عبد القادر کا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے وزیراعظم عمران خان خود اس کانوٹس لیں۔عبدالقادر کے متعلق پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہے ۔بہرحال دوسری جانب پی ٹی آئی کے دیگر ارکان عبدالقادر کی حمایت بھی کررہے ہیں۔
مگر اس سے ایک بات واضح ہوجاتا ہے کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی سینیٹ کے ٹکٹ میں تقسیم دکھائی دے رہی ہے مستقبل میں پی ٹی آئی کیا بلوچستان میں تقسیم ہوجائے گی یہ کہناقبل ازوقت ہوگا مگر یہ ناراضگیاں پہلے بھی دیکھنے کو ملیں تھیں جب بلوچستان میں حکومت سازی کا وقت آیاتھا تو اس دوران پی ٹی آئی کے سردار یارمحمد رند نے پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت شروع کی تھی جس کے بعد مرکزسے انہیں بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کیلئے حکم دیا گیاتھا جس کا اعتراف خود سردار یارمحمد رند بھی کرچکے ہیں۔
اور اس دوران سرداریارمحمد رند کا شکوہ جہانگیر ترین کے ساتھ تھا جبکہ یہ باتیں بھی گردش کررہی تھیں کہ شاہ محمدقریشی سرداریارمحمد رند کی حمایت کررہے تھے مگر اب صورتحال الگ ہے کیونکہ جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے اہم فیصلوں میںشامل ہی نہیں ہیں اور وہ خود سیاسی منظر نامہ سے غائب ہیں ۔اگر بلوچستان میں اپوزیشن جماعتوں کی بات کی جائے تو یہاں پر ان کے درمیان اتحاد واضح طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے بلکہ یہ بھی اپوزیشن دعویٰ کررہی ہے کہ ضمنی انتخابات اور سینیٹ الیکشن پی ڈی ایم کے مشترکہ پلیٹ فارم سے لڑینگے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اس اتحاد کے ساتھ اپنے دعوے کو حقیقت میں تبدیل کریں گی یا پھر کسی نہ کسی جگہ پر اختلاف درمیان میں آجائے گا مگر پی ٹی آئی بلوچستان میں ایک بار پھر تقسیم اور ناراضگیوں کا شکار ہوچکی ہے۔ مرکز کی طرف سب کی نظریںلگی ہوئی ہیں کہ ان اختلافات کو کس طرح سے دور کیاجائے گا اور ناراض ارکان کو منانے کیلئے کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی ۔