|

وقتِ اشاعت :   February 18 – 2021

جمہوری نظام کی مضبوطی کابنیادی جز پارلیمان ہے جہاں پر آئین وقانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کیلئے ملک اورعوامی مفاد میں قانون سازی کی جاتی ہے اور فیصلہ سازی کے عمل کے دوران ہر اس عمل کی باریک بینی سے جائزہ لیاجاتا ہے کہ مستقبل میں اس کے جمہوریت اور مقدس ایوان کے ذریعے قومی مفادات کا تحفظ کس طرح کیاجاسکتا ہے مگر بدقسمتی سے سینیٹ انتخابات کی آمد کے ساتھ ہی یہ بات زدعام ہوجاتی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں بولی کتنی لگ رہی ہے جوکہ انتہائی شرمناک عمل ہے اورجمہوری نظامکے منہ پر طمانچہ ہے کہ جو ایوان بالا میں نمائندگان لائے جارہے ہیں۔

وہ اپنی قیمت دیکر اس مقدس ایوان کاحصہ بن رہے ہیں۔ یہ قیاس آرائیاں اورمفروضے نہیں بلکہ سیاستدان خود ایک دوسرے پر بولی لگانے کا الزام لگاتے دکھائی دے رہے ہیں بہرحال یہ گورکھ دھندھا ابھی سے نہیں بلکہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے اور اس عمل کا حصہ سیاسی جماعتیں بنتی آرہی ہیں اگرچہ اس سے انکار سب ہی کرتے ہیں مگر یہ عمل کسی سے اب پوشیدہ نہیں رہا بلکہ اب تو ایسے امیدوار بھی سامنے آرہے ہیں جن کا سیاسی پس منظر کچھ بھی نہیں ہے اور وہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سینیٹ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ بہرحال شکوہ کس سے کیاجائے۔

یہاں پر دوہری شہریت رکھنے والے افراد ہر دور میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور ملک کے لیے اہم فیصلہ سازی کا حصہ بنتے آئے ہیں جنہیں ملک کے نقصان سے توکوئی سروکار نہیں البتہ نفع میں وہ ہمیشہ شامل رہے ہیں۔ مگر اس عمل کو روکنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو ہی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں اپنے حقیقی ورکرز کو الیکشن میں ترجیح دینی چاہئے جو ملک اورعوام کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے نہ صرف اپنا کردار اداکریں بلکہ قربانی کے وقت وہ صف اول میں دکھائی دیں۔ خیر یہ روایت اتنی جلدی تبدیل ہونے والی نہیں ہے کوئی معجزہ ہوجائے تو شاید بات الگ ہے۔

مگر دوسری جانب سینیٹ انتخابات کے حوالے سے گہماگہمی بڑھ رہی ہے حکومت اوراپوزیشن ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دینے کیلئے مکمل تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر پی ڈی ایم رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ نیئر بخاری نے الیکشن کمیشن سے سینیٹ شیڈول میں توسیع کی بات کی لیکن الیکشن کمیشن نے نیئر بخاری کی بات نہیں مانی اور توسیع کامطالبہ مسترد کر دیا۔یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ اگر یہاں شاہد خاقان اور راجا پرویز اشرف نہ ہوتے تو میرے کاغذات بھی مسترد ہو جاتے۔

ان کا کہنا تھا حکومتی ارکان نے کہا کہ ہماری تیاری نہیں ہے، ہمیں وقت چاہیے تو الیکشن کمیشن نے انہیں وقت دے دیا اور کہا کہ آپ تیاری کرکے آئیں، میرے تجویز و تائید کنندہ کو تو وقت نہیں دیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس مخالف امیدوار کی نااہلی کے لیے کافی مواد ہے، لیکن میں نے اپنے وکیل کو ان کے کاغذات نامزدگی چیلنج کرنے سے روک دیا، وہ میری کابینہ میں سابق وزیر رہے ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سینیٹ الیکشن کو متنازع بنا دیا ہے، پی ڈی ایم چور دروازے سے آ ئین میں ترمیم کرنے کی مخالفت کرتی ہے۔

رہنما مسلم لیگ ن کا کہنا تھا کہ ویڈیو اسکینڈل میں پیسے لینے، دینے اور خریدنے والے پی ٹی آئی کے لوگ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر یوسف رضا گیلانی کے تجویز اور تائید کنندہ نہ ہوتے تو گیلانی صاحب کے کاغذات مسترد کر دیے جاتے، یوسف رضا گیلانی کے کاغذات نامزدگی چیلنج کرنے والے کا وکیل ہی نہیں تھا۔یوسف رضاگیلانی کی یہ بات حیران کن ہے کہ ان کے مخالف کی نااہلی کے ثبوت ہونے کے باوجود کس مروت سے انہیں موقع فراہم کیا جارہاہے اس سے بڑا مذاق نظام کے ساتھ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف اپوزیشن ووٹ کی حرمت کی جنگ کا دعویٰ کررہی ہے۔

تو دوسری جانب نااہل مخالف امیدواروں کو ایوان تک رسائی کا موقع بھی فراہم کررہی ہے، لہذا اس بیان کو سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بہرحال یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ووٹ لینے کیلئے زرکی اہمیت زیادہ ہوتی ہے نسبتاََ عوامی حمایت کے اور یہی بنیادی مسئلہ ہمارے مستحکم جمہوریت کے نظام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔