ملک میں کسی بھی حکومت نے معیشت کومستحکم کرنے کیلئے قرض لینے کاجواز پیش نہیں کیا بلکہ یہی بات دہرائی گئی کہ معیشت کو سہارا دینے کیلئے قرض لینا مجبوری ہے چونکہ ماضی کی حکومتوں نے اتنے قرض لئے ہیں کہ ان کی ادائیگی کیلئے معاشی پہیہ کو چلاکر ہی ان سے نکلاجاسکتا ہے مگر اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ جتنے قرضے لئے جائینگے اتنا ہی سود کی مد میں قومی خزانے پر بوجھ بڑھتاجائے گا۔ قرض لے کر معیشت کو چلاکر پھر اسی آمدن کی ایک خطیر رقم سود سمیت قرض کی مد میں دینی پڑتی ہے اور اس کا براہ راست اثر عوام مہنگائی کی صورت میں برداشت کرتے ہیں۔
ملک میں معاشی صورتحال ہر وقت تنزلی کا شکار رہی ہے صنعتی فروغ کیلئے جو اقدامات اٹھانے کی ضرورت تھی اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی،ملک پیداواری حوالے سے کسی سے کم نہیں ہے مگر اپنی پیداوار کو بڑھانے اور عالمی منڈی تک اپنی مصنوعات کی رسائی کیلئے عالمی سطح پر اس طرح کام نہیں کیا گیا جو کرنا چاہئے تھا۔بہرحال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو قرض پر چلانا زیادہ مشکل ہوتاجارہا ہے اور اس کے نتائج بحرانات کی صورت میں سامنے آرہے ہیں جو آج ملک بھگت رہا ہے روپے کی قدر مستحکم ہو یا پھر معیشت کی مضبوطی دونوں حوالے سے اب بھی چیلنجز موجود ہیں۔
مگر اس سے نکلنے کیلئے وسیع پیمانے پر ایک بہترین میکنزم کی ضرورت ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینا چاہئے۔ بہرحال موجودہ معاشی صورتحال پر گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت میں آئے تو ہمیں ریکارڈ خسارے کا سامنا تھا۔ بیرون ملک پاکستانی قوم کا اہم اثاثہ ہیں۔ شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈز اکھٹے کیے تو سب سے زیادہ اوورسیز پاکستانیوں نے حصہ لیا تھا۔انہوں نے کہا کہ مالی خسارے کا سب سے زیادہ اثر ملکی کرنسی پر پڑتا ہے اور جب کرنسی گرتی ہے تو سب سے زیادہ بوجھ غریب پر پڑتا ہے۔
کیونکہ کرنسی کی قدر کم ہونے سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت غریب عوام اور تنخواہ دار طبقے کو مشکلات کا سامنا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستانی تاریخ میں موجودہ حکومت نے ریکارڈ قرضے واپس کیے اور ہم 20 ارب ڈالرز واپس کر چکے ہیں۔ ہم ٹوٹل 6 ہزار ارب روپے قرضوں کی قسطیں دے چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے باوجود معاشی استحکام رہا اور معاشی بہتری کے لیے بینکوں کا کردار اہم ہے تاہم بینکوں کو آسان قرضوں کی فراہمی پر کام کرنا چاہیے۔عمران خان نے کہا کہ پہلے لوگ ٹیکسٹائل سے رئیل اسٹیٹ میں جا رہے تھے۔
لیکن اب ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ روپے کو مستحکم رکھنے کے لیے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اہم پیشرفت ہے۔ بہتر اقدامات سے اب ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے۔حکومت کے اعداد وشمار اپنی جگہ مگر زمینی حقائق الگ ہی دکھائی دیتے ہیں لہذا حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے مستقل بنیادوں پر ایسی پالیسیاں بنائے کہ معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے جس کیلئے پیداواری صنعت کو خاص کرفروغ دیا جائے اور عالمی منڈی تک اپنی مصنوعات پہنچانے کیلئے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کومستحکم کیاجائے۔
کیونکہ معیشت قرض کے سہارے ترقی نہیں پاسکتی۔ جتنے قرض لئے جاتے ہیں وہی منافع قرض کی مد میں چلا جاتا ہے جبکہ ہمارا خزانہ خسارے میں ہی چلتا آرہا ہے اس سے نکلنے کیلئے بہترین معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان ہر قسم کی نعمت سے مالامال ہے مگر ہمارے حکمرانوں نے اپنے وسائل کو صحیح معنوں میں بروئے کارنہیں لایاکہ جس سے ملک میں معاشی حوالے سے مثبت تبدیلی آئے۔