|

وقتِ اشاعت :   February 20 – 2021

کو ئٹہ: سپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے صوبائی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے کہ کیسکو واجبات کی ادائیگی سے متعلق اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے ، اسمبلی فلور پر ایک ہفتے میں واجبات کی ادائیگی کا وعدہ کیا گیا تھا ان خیالات کااظہار انہوںنے گزشتہ روز اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کے اٹھائے گئے نکات پر رولنگ دیتے ہوئے کیا ۔

قبل ازیں اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیراحمدشاہوانی نے کہاکہ صوبے میں صرف تین گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے ،لوگوں کو پینے کاپانی میسر نہیں ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائی جو اسلام آباد میں جا کر وفاق سے بات کرے بی این پی کے رکن ثناء بلوچ نے کہا کہ کیسکو کو واجبات کی مد میں عدم ادائیگی سے بلوچستان کے لوگ بجلی اور پانی سے محروم ہیں پورا صوبہ مسائلستان بن گیاہے۔

بلوچستان کے اداروں کی رگوں میں کرپشن کا خون شامل کیاگیاہے جس کے پاس گھر میں ایک بندوق ہے وہ سڑک پر کھڑے ہوکر گاڑیوں سے پیسے وصول کررہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ہم نے پی ایس ڈی پی کے صاف وشفاف طریقے سے استعمال کرنے کامطالبہ کیا تاکہ لوگوں کو تعلیم ،روزگار ،پینے کے صاف پانی کے مواقع میسر آئیں مگر پی ایس ڈی پی میں 10،دس ارب روپے من پسند لوگوں کو جاری کئے گئے صوبہ تاریخ کی بدترین دور سے گزررہا ہے۔

کورونا کی مد میں 20کروڑ روپے کے ڈبے خریدے گئے ان میں اگر جانور کو بھی دو گھنٹے رکھاجائے تواس کی سجی بن جائیگی ،صوبے کے حکمرانی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہا کہ آج ملک جن حالات سے گزررہاہے ہمارے آبائو اجداد نے یہ حالات نہیں دیکھے صوبے کے گلی کوچوں میں بدامنی سراٹھارہی ہے ۔

بعدازاں اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی کو ہدایت کی کہ وہ چیف سیکرٹری کو مراسلہ ارسال کرے کہ اسمبلی فلور پر وعدہ کیاگیاتھاکہ ایک ہفتے کے اندر کیسکو کو واجبات کی مد میں رقم ادا کی جائیگی لہٰذا وضاحت کی جائے کہ کن وجوہات کی بنا پر اب تک کیسکو کو رقم ادانہیں کی گئی۔ دریں اثناء بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بی این پی کے رکن اسمبلی اخترحسین لانگو نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہاکہ 2005ء میں بلوچستان اسمبلی میں کوئٹہ کے رہائشی کالونیوں جی او آر کالونی۔

وحدت کالونی اور جونیئر اسسٹنٹ کالونی کے رہائشی ملازمین کو مالکانہ حقوق دئیے جانے سے متعلق قرارداد منظور ہوئی تھی حکومت نے مذکورہ کالونیوں کو منہدم کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

بجائے رہائشی کالونیوں کو مہندم کرنے کے کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں نئی کالونیاں بنائی جائیں اور 2008ء کو منظور ہونے والی قرارداد کوسامنے رکھتے ہوئے تینوں رہائشی کالونیوں میں رہائش پذیر ملازمین کو مالکانہ حقوق دئیے جائیں ۔