|

وقتِ اشاعت :   February 20 – 2021

حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے حکومت کے خلاف غیر معینہ مدت تک دھرنے کی منظوری دے دی ،یہ فیصلہ پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس میں ہوا۔ دھرنے کو لانگ مارچ کا نام دینے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ ملک بھر سے قافلے ایک ساتھ اسلام آباد میں داخل ہونگے۔ لانگ مارچ میں شامل ہر جماعت اپنے کارکنوں کا خرچ اٹھائے گی، اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ دھرنے کی جگہ باتھ روم، کھانے اور دیگر انتظامات تمام جماعتوں کی مقامی تنظیمیں اٹھائیں گی جبکہ راولپنڈی ،اسلام آباد، کے پی کے، آزاد کشمیر اور نواحی علاقوں کے کارکنوں کو زیادہ تعداد میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ۔

لانگ مارچ کی منزل فیض آباد یا ڈی چوک ہوگی اس کا فیصلہ پی ڈی ایم کی پلاننگ کمیٹی کرے گی۔پی ڈی ایم قیادت کی جانب سے فیصلہ ہوا کہ حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکاء کو جہاں جس شہر میں روکا جائے گا وہ قافلے وہیں دھرنہ دیں گے۔واضح رہے کہ پی ڈی ایم نے 26 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جس میں ملک بھر سے اپوزیشن جماعتوں کے قافلے شامل ہوں گے۔بہرحال اپوزیشن کی جانب سے لانگ مارچ کافیصلہ بہت پہلے کیاجاچکا تھا جس کا مقصد حکومت کو گھر بھیجنا ہے ۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہر دور میں حکومت مخالف تحریکیں چلتی آئی ہیں البتہ ماضی کی کچھ تحریکیں ایسی رہی ہیں جس میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنا حصہ ڈالا اور اس کا بنیادی مقصد ملک میں جمہوری نظام کو مستحکم کرنا تھا اور اس دورانیہ میں یہ بھی دیکھنے کوملا کہ ان رہنماؤں نے طویل قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں مگر اپنے نظریہ سے انحراف نہیں کیا اور اس پر آخری دم تک قائم رہے جس کی وجہ سے ملک میں کسی حد تک جمہوری سوچ مضبوط ہوئی۔ البتہ گزشتہ چند برسوں کی بات کی جائے تو اپوزیشن جماعتوں کا اہم مقصد صرف حکومت کو گرانا اور خود حکومت کے تخت پر بیٹھنا رہا ہے۔

جس میں نظام میں اصلاحات، عوامی مفادعامہ کیلئے قانون سازی سمیت دیگر انسانی بنیادی حقوق شامل نہیں رہے۔ مگر ماضی کے ان رہنماؤں کا مقصد ملک کو ایک حقیقی فلاحی ریاست بنانا تھا جس میں عام لوگوں کے مفادات کو خاص کر تحفظ دینے سمیت ملک کو خوشحالی کی جانب گامزن کرنا تھا جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں بادشاہت طرز حکمرانی کیخلاف تحریکیں چلائی گئیں اور عوام کو اس میں براہ راست شریک کیا گیا کیونکہ عوام کی حمایت کے بغیر حکومت اوراپوزیشن کوئی بھی اپنی پوزیشن برقرار نہیں رکھ سکتی ،یہ واضح فرق ہمارے یہاں موجود ہے۔

پیپلزپارٹی دور حکومت میں ن لیگ اس کیخلاف کھڑی ہوئی ،اسی طرح ن لیگ کے دور میں پیپلزپارٹی مخالفت میں کھڑی رہی۔ پرویزمشرف کے دور حکومت میں ایک الگ سیاسی منظرنامہ سامنے آیا جس میں ملک کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں شریک ہوئیںمگر اس تحریک کے اندر سے جو نتائج سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کی غرض سے نکالے یہ سب کے سامنے ہے کیونکہ تاریخ اپنی جگہ موجود رہتی ہے اور یہی تاریخ سیاسی کردار کا تعین کرتی ہے۔ البتہ بات موجودہ تحریک کی ہورہی ہے جوکہ حکومت پر مبینہ دھاندلی کے الزام کی بنیادپر چلائی جارہی ہے۔

اسی طرح ن لیگ کے دور میں پی ٹی آئی نے طویل احتجاج کیا اور اس میں بھی مبینہ دھاندلی کا الزام لگایاگیا ،گویا تین ادوار میں دھاندلی کے الزامات سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پرلگاتی آرہی ہیں اور یہ دعوے کرتی رہی ہیں کہ عوامی حمایت انہیں حاصل ہے ۔یہ کہنا کہ ہمارے یہاں شفاف انتخابات پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا غلط ہے کیونکہ خرابیاںنظام کے اندر موجود ہیں مگر اس بگاڑکے ذمہ دار کون ہیں؟ یقینا جواب انہی سیاسی جماعتوں سے ہی لیاجاسکتا ہے جو گزشتہ کئی ادوار سے حکومت کرتی آرہی ہیں۔

جب تک سیاسی جماعتیں خود احتسابی عمل سے نہیں گزریں گی ملک میں جمہوری نظام یا عوامی مفادات کے تحفظ کی باتیں محض دعوے ہی ثابت ہونگے پھر حکومتیں بنیں گی، احتجاجی تحریکیں چلیں گی نظام اسی طرح ہی چلتا رہے گا جبکہ عوامی مسائل اپنی جگہ برقرار رہینگے جس کا فائدہ عوام کو کبھی نہیںملے گا۔