|

وقتِ اشاعت :   February 21 – 2021

وفاقی وزیرداخلہ شیخ عبدالرشید نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پاک ایرانی سرحد مند ردیگ کا دورہ کیا، آئی جی ایف سی ساؤتھ بلوچستان ایمن بلال صفدر انکے ہمراہ تھے، ردیگ مند سرحد پر بریگیڈیئر آرمی نوید اقبال، ونگ کمانڈر ایف سی توقیر حسن اور ڈپٹی کمشنر کیچ میجر ریٹائرڈ محمد الیاس کبزئی نے ہیلی پیڈ پر انکا استقبال کیا۔اس دوران وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ لوگوں کی نقل و حرکت اور سرحد پار تجارت کی فروغ کیلئے سرحد پر جدید انتظامات کئے جا رہے ہیں۔وفاقی وزیرداخلہ نے پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد کا فضائی دورہ بھی کیا۔

شیخ رشید احمد نے کہا کہ ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر باڑ لگانے کا عمل اس سال جون میں مکمل ہو گا جبکہ بلوچستان ایران سرحد پر باڑ لگانے کا کام بھی زور شور سے جاری ہے۔وزیر داخلہ نے بلوچستان میں سرحد پر حال ہی میں نصب کئے گئے پاکستان، ایران تجارتی گیٹ کا دورہ بھی کیا اور تجارتی سازوسامان کی نقل و حرکت کا جائزہ لیا ۔دریں اثناء ردیگ ایف سی کیمپ میں برگیڈیئر نوید اقبال اور ڈپٹی کمشنر کیچ محمد الیاس کبزئی نے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کو ردیگ بارڈر پر پاکستان اور ایران کے اشتراک سے بننے والی۔

جوائنٹ بارڈر پائلیٹ پروجیکٹ سے متعلق بریفنگ دیتے ہوکہا کہ پاک ایران سرحد ردیگ مند اور گبد میں پانچ پانچ ایکڑ پر مشتمل فری ٹیکس جوائنٹ بارڈر پائلیٹ پروجیکٹس تعمیر کی جائینگی جn کی تعمیر سے مکران سمیت پورا بلوچستان اس سے استفادہ کرے گا ،بریفنگ کے دوران سرحدی راہداری اور سکیورٹی کی صورتحال پر بھی وفاقی وزیر داخلہ کو بریفنگ دی گئی ۔بلوچستان کی طویل سرحدی پٹی دوممالک ایران اور افغانستان سے ملتی ہے جبکہ بلوچستان کے سرحدی علاقوںمیں رہائش پذیر بڑی تعداد میںلوگوںکا ذرائع معاش اسی سرحد سے وابستہ ہے۔

مگر کچھ عرصہ سے یہاں کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے جس کی وجہ غیر قانونی پیٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ ہے۔ یہ بات جاننا ضروری ہے کہ اس کے سوا مقامی لوگوں کے پاس اور کوئی دوسرا روزگار نہیں ہے ایران اور افغانستان سے اشیاء لاکر وہ فروخت کرتے ہیں جس سے ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے گوکہ غیر قانونی ٹریڈ کی اجازت کسی بھی ملک میں نہیں دی جاتی مگر معاشی حوالے سے سرحدی علاقوںمیں اس طرح کی سہولیات لوگوں کو نہیں دی گئی ہیں کہ وہ قانونی طور پر تجارت کرکے اپنے معاش کامسئلہ حل کرسکیں ،اس لئے کئی دہائیوں سے ایرانی سرحد سے پیٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اشیاء کاکاروبار مقامی افراد کرتے آرہے ہیں۔

اس جانب ہر وقت توجہ دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ سرحدی علاقوں میں قانونی طریقے سے تجارت کے حوالے سے ایک ایسا میکنزم تیار کیاجائے جس سے مقامی لوگوںکے معاش کا مسئلہ حل ہوسکے اور ان کی مشکلات میں کمی آسکے۔ امید ہے کہ حکومت سیکیورٹی کی بنیاد پر باڑ کے حوالے سے اپنا کام کرے گی مگر تجارتی حوالے سے بھی سوچنا ضروری ہے کیونکہ بلوچستان کے عوام کی حالت سے سب ہی واقف ہیںکہ وسائل سے مالامال اس خطے کے نوجوانوں کیلئے سرکاری وغیر سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے وہ بہ امر مجبوری یہ کاروبار کرتے ہیں۔

وگرنہ انہیں بہتر روزگار فراہم کیاجائے تو غیر قانونی اسمگلنگ کاکاروبار لوگ خودترک کردینگے۔ اس لئے عوام کے معاشی حالات کو سمجھتے ہوئے ان کو ریلیف دینے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ سرحدی علاقوںمیں رہنے والے افراد کے معاشی مسائل حل ہوسکیں۔