|

وقتِ اشاعت :   February 23 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی)نے اپنی حالیہ سینٹرل کمیٹی کی روح سے مرکزی پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں اس میں کوئی شق نہیں کہ بین الاقوامی حالات کی وجہ سے ایشیاء میں ایک معاشی بحران پیدا ہوئی ہے۔

اور بین الاقوامی تناظر میں اس کی کھڑی ملتے ہوئے اس کے تمام تر اثرات اس ملک پر پڑ چکی ہے خارجہ پالیسی کی کمزوری اور غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے باقی دنیا سے ہم کھٹتے جارہے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک نیا عمرانی معاہدے کی تحت ملک کے تمام جمہوری قوتوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے نیو سوشل Contect کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ایک جامعہ پالیسی اپنایا جاتا ۔

اور ہمسایہ ملکوں سے تجارتی تعلقات اور بارڈر ٹریڈ کو اولیت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے مستقبل کی ترقی اور خوشحالی کی راہ کو تعقویت پہنچاتے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت سوائے طاقت اور زور ازمائی کی ہم کسی اورسمت کے سوچ ہی نہیں رہے ہیں ملکی جے ڈی پی بالکل منفی پر پہنچ گئی ہے ان پورٹ ایکسپورٹ بالکل رک چکی ہے ملک کے سرمایہ دار مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔

اور اپنا سرمایہ باہر شفٹ کررہے ہیں مہنگائی اپنی عروج پر پہنچ چکی ہے اس مہنگائی اور غیر یقینی کیفیت سے انار کی کی خدشات کی بو آرہی ہے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے قومی یکجہتی ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہے ملک کو چلانے کیلئے آئی،ایم،ایف۔ورلڈ بینک اشیا ڈویلپمنٹ بینک سے لون لیکر ملکی معیشت کو ایڈیکیزم پر چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ک یہ ایک پرانی حکمت عملی ہے اس ملک کے حکمرانوں نے جولون باہر کی دنیا سے لی ہے پچھلے ادوار میں ایسا کوئی جامعہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔یہاں نا انصافی نا برابری،جبر کے انداز نوآبادیاتی طرز حکمرانی کی مائنڈ سیٹ نے پورے نظام کو جنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔

تو اسکی زمہ دار نہ اس ملک کے کسان ہے نہ مزدور ہے نہ مڈل کلاس کے لوگ ہیں بلکہ وہ طبقہ ہے جو پالیسی میکر اداروں میں بیٹھ کر بغیر کسی تجربہ اور خورد بینی کے اپنے سرور میں رہتے ہوئے جلد بازی اور وقتی مفادات کو حاصل کرنے کی خاطر ملک کو اس حد تک لاکر کھڑا کر دی ہے کہ ہر اطراف سے آہ اور چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں حاکم اور حکمرانوں کی کانوں میں سچ اور انصاف کی آواز کو سننے کا کائی گنجائش باقی نہ رہا یہ بحرے اور گنگے ہو چکے ہیں۔

اسی نا انصافی اور نابرابری کے عالم میں عدل کے ہر پلر کو گرا کر چورا چورا کر دیاگیا ہے اس لیے بی این پی (عوامی) یہ سمجھتی ہے کہ ا س ملک کا مستقبل جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی کے علاوہ اور کچھ نہیں بی این پی (عوامی) ملکی اداروں کی شفافیت،میرٹ اور عدل کا نظام چاہتا ہے، آنے والے وقت کی چیلنجز کا اس وقت مقابلہ کیا جا سکتا ہے کہ جب پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندے پہنچ سکیں ٹھپہ مافیہ کلچر نہ تجربہ کار اور جاہل لوگوں کوا گر پارلیمنٹ کی بھاگ دوڑ انکی ہاتھ میں دی گئی۔

تو دنیا کے سامنے جگ ہنسائی کے علاوہ اور کچھ دیکھنے کو نہیں ملے گا بی این پی(عوامی) عدلیہ کی آزادی پارلیمنٹ کی بالادستی،میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہوئے حکمرانوں سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ اپنی گھمنڈ اور غرور اور آنا کو ختم کرتے ہوئے حق اور سچ کے ساتھ چلنے کی اخلاقی جرات کریں یہی اخلاقی جرات ملک اور 22کروڑ عوام کی بہتری کیلئے ایک نیک شگون ہوگا۔

پچھلے 74سالوں کی پالیسیوں کو تعقویت دینے کی بجائے عالمگیر دنیا سے سبق حاصل کرتے ہوئے علم و ہنر کی دنیا کو اپناتے ہوئے بہتر جامع منصوبہ اور حکمت عملی کے ساتھ معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے مقدر قوتوں کو حالات اور وقعات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر ری تنگ ری وزٹ کرتے ہوئے بجائے دوسروں پر انحصار کرنے کا کبھی امریکہ کبھی سعودی کبھی چائنہ کے انتظار میں کہ کب ریال کب ڈالر کب دینار آئیں گے کب تیل ادھار پر ہمیں ملے گی۔

اس مفت خوری اور خواہشات نے ہماری صلاحیتیوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اس لئے بی این پی (عوامی)سمجھتی ہے کہ ملکی معیشت کو تعقویت دینے کی خاطر قومی گول میز کانفرنس کا انعقاد کرتے ہوئے نیک نیتی اور دور اندیشی کے ساتھ مسئلوں کوجانچتے پرکھتے ہوئے پالیسی اپنائی جائے اس وقت ملک میں سی پیک (پاکستان چائنہ اکنامک کوریڈور)کے حوالے سے معیشت کی بحالی کیلئے جو منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

ان تمام منصوبہ بندیوں میں بلوچستان کے عوم کو اعتماد میں لیا جائے بی این پی (عوامی)ملکی ترقی اور خوشحالی کی مخالف نہیں لیکن جہاں کئی بلوچستان کے عوام اور انکی ہزاروں سالوں سے زمین میں دفنائے ہوئے معدنیات،ساحل سمندر ہے ان ساحل اور وسائل کی ضامن پارٹی ہے ہم سمجھتے ہیں ۔