کو ئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں انجینئرنگ یونیورسٹی کی نجکاری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار بلوچستان کی واحد پبلک سیکٹر انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جہاں بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے طلباء کی ایک کثیر تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کا قیام 88-1987 میں ایک کالج کی شکل میں عمل میں لایا گیا تھا جسے 1994 میں باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار اپنے قیام سے بلوچستان کے طالب علموں کے لئے آسان حصولِ تعلیم اور ایک بہترین درسگاہ رہا ہے. یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔
مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بلوچستان کے طلباء اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے انتہائی مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہیں.۔بلوچستان میں اعلیٰ تعلیم کی فراہمی کیلئے گنتی کے چند جامعات موجود ہیں جن میں بھی بنیادی تعلیمی سہولیات کی فقدان کے باعث طلباء و طالبات کو انگنت مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی نااہلی و عدم توجہی کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد اپنے اعلی تعلیم کے خواب سے دستبردار ہوتے نظر آرہی ہے۔
ایک طرف تعلیمی اداروں کی کمی اور ان میں بنیادی تعلیمی سہولیات کا فقدان جیسا ایک اہم مسئلہ اپنی وجود رکھتی ہے تو دوسری جانب آج کل موجودہ صوبائی حکومت اور گورنر ہاؤس میں موجود لابی اپنے ایک نئے حربہ، نجکاری کے ساتھ تعلیمی اداروں سے محکوم بلوچ طالب علموں کا صفایا کرنا چاہتی ہے۔ جس کی واضح مثال بولان میڈیکل کالج کی نجکاری کی کوششیں تھیں اور اب انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کی بھی نجکاری کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔
مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بلوچستان حکومت اور پس پردہ قوتوں کے دست نگر بلوچستان میں ایک ایسا ٹولہ وجود رکھتی ہے جو ایک منظم انداز کے ساتھ بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھنے کی خاطر مختلف حربے استعمال کررہے ہیں۔انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کی نجکاری کی پیچھے پس پردہ ذہنیت اور گروہ کے تانے بانے بولان میڈیکل کالج کی نجکاری کی کوششیں کرنے والے گروہ سے ملتے جلتے ہیں۔
اانجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کے سال 2019 اور سال 2020 کے فیسوں میں ہوشربا اضافہ ، سیلف فنانس کی سیٹوں میں اضافہ جامعہ انتظامیہ کی جانب سے روا رکھے نجکاری پالیسوں کا تسلسل ہے۔ جامعہ میں ایک مخصوص لابی وائس چانسلر کے زیرنگرانی اپنے منفی عزائم کے تکمیل کی کوششیں کررہا ہے۔ اور یہی لابی جامعہ ہذہ میں اٹھنے والے طلباء حقوق کی ہر آواز کو انتہاہی بے رحمی سے کچلنے کی کوششوں میں مصروف کار ہے۔
حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے طلباء و طالبات کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مختلف طریقوں سے دھمکیاں اور ہراساں کرکے طلباء کو خاموش کردیا جاتا ہے۔مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم ایک صوبائی سبجیکٹ ہے۔جس کی روء کے مطابق تعلیم کے تمام معاملات اور اختیارات صوبائی حکومت کے زمہ داری ہیں۔
ملک کے دیگر صوبوں میں تعلیم صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں میں ہیں اور وہاں صوبائی اعلی تعلیمی کمیشن کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ لیکن بلوچستان کے نااہل صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ 18 ویں ترمیم کی شق برائے تعلیم پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
مرکزی ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں حکومت بلوچستان سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو اس سنگین مسئلے کی جلد از جلد نوٹس لینے کی پرزور اپیل کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان حکومت اداروں کی نجکاری کے حوالے سے ہونے والی کوششوں کا سدباب کرے اور پس پردہ ذہنیت کو عوام کے سامنے آشکار کرنے کے ساتھ ساتھ 18 ویں ترمیم کے مطابق تعلیم کے حوالے سے اپنی زمہ داریوں کو پورا کریں اور دیگر صوبوں کی طرح صوبائی اعلی تعلیمی کمیشن کا قیام عمل میں لائے۔